نیا پاکستان مبارک ہو
سفر در سفر
Latest Column of Ata ul Haq Qasmi | 9th June 2017
غیر ذمہ دار اقتدار
Latest Column of Hasan Nisar | 9th June 2017
فوٹو ایمبولینس ایم او ڈی حسین نواز پرویز مشرف
Latest Column of Taqri Butt | 9th June 2017
نگہ کی نامسلمانی سے فریاد
Latest Column of Haroon Rasheed | 9th June 2017
کنگ ایڈپیس کا انصاف
Latest Column of Rauf Klasra | 9th June 2017
میرے والد ملک علی حیدر
Latest Column of Babar Awan | 9th June 2017
ہم کہاں کے دانا تھے
Latest Column of Nusrat Javed | 29th June 2017
مار نہیں پیار
جب تک کہ کچھ بیہیمانہ تشدد کی رودادیں اور کیسز رپورٹ نہیں ہوئے۔بچوں کی تعلیم ایک ایسا موضوع جس میں ہر شخص کو دلچسپی ہوتی ہے آپ کسی فورم پر اس موضوع کو زیر بحث لائیں تو معلوم پڑتا ہے کہ ہر فرقہ ہر طبقہ ہر مزہب کے لوگ نہ صرف متوجہ ہوں گے بلکہ اپنے تئیں کچھ نہ کچھ تبصرہ بھی ضرور کریں گے مگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو اس پر بہت کم لوگ عمل کرتے نظر آتے ہیں۔ تعلیم وہ زیور ہے جو بچوں کی شخصیت کو نکھارتا ہے معاشرے تہزیب قانون اور رہن سہن کے بہتر طریقے سکھاتا ہے ہمارے مزہب اسلام میں ہر مرد و عورت پر تعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے یہاں تک کہ ہم خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے معلم ہونے پر کتنا فخر محسوس کیا اور فرمایاہے۔
ہمارے ہاں تعلیم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بہت سے اساتذہ مار کو بچوں کی تعلیم اور ان کے رویوں میں فوری تبدیلی لانے کے لیے ایک مفید ہتھیار ہے۔ مُرغا بنا کر ڈرا کر دھمکا کر یا سب کے سامنے سزا دے کر اساتذہ بچے کو قواعد کی پابندی اور فوری اچھے تعلیمی نتائج حاصل کرنے پر مائل تو کر سکتے ہیں پر ان کی شخصیت میں نکھار نہیں لاسکتے جو خود اعتمادی بچے کو مستقبل میں کامیابی کے زینوں پر لے جاتی ہے وہ پیدا نہیں کر سکتے ۔ ایسے تناؤ والے ماحول میں بچہ اساتذہ کے احکامات کی تعمیل تو کرتا ہے مگرگھر سے سکول کے لیے نکلنے والے بچے پھر سکول سے بھاگنے اور سکول نہ جانے کو ترجیح دیتےہیں۔ ایک ادارے “الف اعلان” کی ایک رپورٹ کے مطابق آج بھی 70 فیصد اساتذہ مار کو بچوں کی تعلیم میں بہت مفید Tool سمجھتے اور استعمال کرتےہیں۔ اس معاملےمیں اساتذہ سے کیے گئے سوالات کے جوابات اور دلائل پر ایک نظر ڈالتے ہین۔
اساتذہ کرام کا نام لینا مناسب نہیں اس لیے ان کی سوچ اور دلائل کو آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ ایک استاد محترم سے جب یہ سوال کیا کہ مار کیوں ضروری ہے تو ان کا جواب تھا “جب آپ کو اپنی سپیشلائزیشن سے ہٹ کر کچھ پڑھانا پڑے تو بہت مشکلات پیش آتی ہیں جیسے ہم نے انگلش چھٹی جماعت سے پڑھی تھی اور اب ہمیں انگلش کی کتابیں تھما کر کہا گیا کہ پہلی جماعت سے انگلش پڑھائی جائے تو ہمیں مار کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور معلم سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ایسے سکولوں میں جہاں اساتذہ کی تعداد کم ہوتی ہے یا صرف دو ہوتی ہے وہاں اگر ایک استاد کو غیر تعلیمی سرگرمیوں (الیکشن یا کسی اور ڈیوٹی) پر جانا پڑتا ہے تو پورے سکول کی ذمہ داری ایک استاد پر رہ جاتی ہے اور اتنے بچوں کوپڑھانا فرد واحد کا کام نہیں تو مار کا استعمال کرنا پڑتا ہے جس کے ڈر سے بچے پڑھتے ہیں۔
سال 2006 میں ساؤتھ ایشیا فورم فار ایجوکیشن ڈیولپمنٹ کی ایک میٹنگ میں National Child Policy پر عمل درآمد کا نعرہ لگایا گیا لیکن اگر آرٹیکل 89 آف پینل کوڈ 1860 کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس میں باقاعدہ 12 سال سے کم عمر بچوں کی فلاح کے لیے انہیں ہلکی پھلکی سزا کو قانون حیثیت حاصل ہے۔ اس قانون کے لے کر ایک اور سچا واقعہ اس تحریر کے اختتام میں آپ لوگوں کے گوش گزار کروں گا۔ جب قانون میں اس قسم کی سقم موجود ہو تو کیسے بچوں کے خلاف تشدد اور مار پیٹ کو روکا جا سکتا ہے۔ اس معاملے کو لے کر بارہا اقدامات کیے گئے مگر قانون میں تبدیلی کے بغیر اس کا سد باب کہیں ممکن نظر نہیں آتا۔
اس امر میں 27 مارچ 2014 کو وزارت قانون و انسانی حقوق نے SAIEVAC (South Asia Initiative to End Violance Against Children) کے ساتھ مل کر اس بچوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کا ہر فورم پر اور قانون لحاظ سے خاتمے کا اعادہ کیا اور اس کے تحت اسلام آباد میں 5سال سے 16 سال کے بچوں کے خلاف تشدد پر سخت قانون کاروائی کو یقینی بنایا۔ سوال یہ ہے کہ قانون بن جانے کے باوجود کیا اس بچے میں اتنا حوصلہ اور سکت ہوتی ہےکہ وہ خود پر کیے گئے تشدد کی شکایت کر سکے ؟ جس بچے کو تشدد اور سزا کے خوف نے گھیرا ہو وہ کیسے اس کی شکایت یا ازالے کی درخواست کر سکتا ہے ؟ اب ایک نظر ڈالتے ہیں ان عوامل پر جو بچوں پر تشدد کے سد باب میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں
سکول اور اساتذہ کا کردار
بچوں کی بہتر تعلیم اور تربیت کے لیے سکول بہت اہم محرک ہے۔ یہی وہ ادارہ ہے جہاں سے بچے کی تعلیم کا مقدس فریضہ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے یہی وہ ادارہ ہے جہاں سے بچے میں معاشرتی اقدار نشوونما پاتی ہیں۔ سکول کا ماحول دوستانہ اور گھر جیسا ہو اساتذہ پیار کرنے والے اور شفقت سے پیش آنے والے ہوں تو بچوں میں سکول اور تعلیم کے لیے رغبت بڑھتی ہے ان کے اندر شوق پیدا ہوتا ہے اور اگر اس کے برعکس سکول میں بچوں کو تشدد ذلت و رسوائی ملے تو ان کی شخصیت نکھرنے کے بجائے بگڑتی ہے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے جو کہ بچے کے مستقبل کے لیے زہر کا کام کرتی ہیں۔ سکول بچوں کے مسائل حل کرنے کے بچائے اگر ان کے مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب بن رہی ہو تو بچوں کی تعلیم و تربیت کا حال موجودہ حالات سے مختلف نہیں ہوتا۔ اس امر میں اگر سکول میں بچوں کے مسائل کے حل اور انہیں جاننے کے لیے اساتذہ کی کمیٹی بنا دی جائے تو وہ ان مسائل کے سد باب کے لیے بہت کارگر ثابت ہوتی ہے۔
والدین کا کردار
بہت دُکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے والدین بچوں کو سکول بھیج کر یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ اب ڈاکٹر یا انجینئر بن کر ان کا سہارہ بنے گا ان کا نام روشن کرے گا۔ یہاں تک کے والدین بچوں کے معاملات میں خاطر خواہ دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ جب بچے کے مسائل و معاملا ت میں والدین دلچسپی نہیں لیتے تو بچے کی شخصیت اور سوچ کیموفلاج ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس کا ذہن مثبت سوچ رکھنا چھوڑ دیتا ہے۔ بچوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے والدین کو بچوں کے معاملات میں خصوصی دلچسپی لینا ہو گی جب تک آپ کو مسائل کا علم نہیں ہو گا آپ انہیں حل کیسے کریں گے۔ بچوں کے مسائل اور مشکلات کو جانیے اور اس سلسلہ میں ادارہ یا سکول سے اساتذہ سے روابط استوار کیجیے کہ ایک اور نسل نظر انداز نہ ہو جائے۔
محکمہ تعلیم کا کردار
والدین اساتذہ اور سکول کے ساتھ ساتھ محکمہ تعلیم کا بھی بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت میں اہم کردار ہے۔ محکمہ تعلیم اگر مار نہیں پیار کا سلوگن سکولوں کے باہر لگا کر اور سکولوں میں احکامات جاری کر کے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے سد باب کے لیےاساتذہ کو تشدد کے متبادل مثبت اقدامات کی تربیت اور ٹریننگ دینا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ سکولوں میں تشدد کے خلاف سخت کاروائی کی تنبیہہ بھی محکمہ تعلیم کا فرض ہے نہ صرف اساتذہ کی مثبت تربیت بلکہ اس تربیت پر کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے اسے بھی یقینی بنانا محکمہ تعلیم کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس امر میں بہتر اقدامات کرنے اور مثبت رویے اور ماحول اپنانے والے سکولوں کو سالانہ انعامات دے کر باقی سکولوں کو بھی مثبت رویے اور ماحول اپنانے کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ سکولوں میں سزاؤں اور تشدد کے خلاف محکمہ تعلیم نے بہت کام کیا ہے مگر اس کے مکمل سد باب کے لیے والدین، اساتذہ اور محکمہ تعلیم کو مل کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
ایک واقعہ آپ سب کے گوش گزار کر کے تحریر کو سمیٹتا ہوں۔ قریب 18 سال پہلے ایک پاکستانی نوجوان ڈاکٹر کو انگلستان میں اچھی نوکری ملی۔ اچھے روزگار اور بہتر ماحول کی سوچ لے کر وہ ڈاکٹر وہاں جا بسا ۔ اپنی بیوی اور ایک بیٹی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگا۔ بیٹی کو بھی وہیں سے تعلیم دلوائی۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک ایک دن اس کی بیٹی اپنے ساتھ ایک سکھ نوجوان کو لے کر آئی اور کہا کہ یہ میرا کلاس فیلو ہے اور میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ شش و پنج کا شکار والدین نے اس وقت تو کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا، مگر سکھ نوجوان کے جانے کے بعد بیٹی کو سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی مگر بیٹی کسی طور اپنے فیصلے سے ہٹنے کو تیار نہ تھی۔ ڈاکٹر نے بہت کوشش کی اسلامی مثالیں دیں کہ وہ غیر مذہب ہے اس سے شادی جائز نہیں مگر بیٹی نے ایک نہ سُنی۔ چار و نا چار ڈاکٹر نے اپنی بیٹی کو کمرے میں بند کر دیا۔ 3 روز گزرنے کے بعد وہ سکھ اپنے ساتھ پولیس لے کر ڈاکٹر کے گھر پہنچھ گیا۔ ڈاکٹر نے اس وقت یہ وعدہ کر کے سکھ اور پولیس کو روانہ کیا کہ ہمیں تیاری کا موقع دیں اور ایک ہفتے بعد آکر بیٹی سے شادی کر لیں۔ سخت قوانین اور ان پر عملداری کے پیش نظر وہ سِکھ نوجوان واپس چلا گیا۔ ڈاکٹر نے اس سے اگلے دو روز میں اپنی نوکری چھوڑی محنت اور لگن سے بنایا گھر بیچا اور تیسرے دن اپنے وطن پاکستان پہنچ گیا اور ایئر پورٹ پر اترتے ہیں اپنی بیٹی کو کہا کہ اب دیکھتا ہوں کہ کیسے تم ایک غیر مذہب شخص سے شادی کرتی ہو۔ یہ پاکستان ہے انگلستان نہیں۔
جواد اصغر سیاست اور دیگر سماجی مسائل پر اچھی نظر رکھتے ہیں اور ان مسائل پر لکھتے رہتے ہیں آپ ان کو ٹویٹر پر فالو کر سکتے ہیں :
@JawadAsghar4
حکومت ، صحافت اور کہانیاں
آخر المائڈہ نے کیا لکھ دیا تھا کہ ریاست میں ہلکے درجے کا زلزلہ محسوس کیا گیا ہے. پہلا اعتراض تو حساس ملاقاتوں کا احوال افشاں کرنے پر کیا گیا. دوسرا اعتراض دشمن کے بیانیے کی تشہیر کا لگایا گیا ہے. اس رپورٹ کو قومی سلامتی کے ساتھ جوڑنے کی بھی کوشش کی گئی. اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تحقیقات سے قبل ہی قومی سلامتی سے متصادم قرار دے کر غدار قرار دیا جاتا ہے. صحافیوں کو سبق سکھانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے. المائڈہ تو خوش قسمت ہیں کہ دفتری کارروائیوں کا شکار ہوئے ہیں نہیں تو اس سے بیشتر سلیم شہزاد اس قسم کی خفیہ معلومات کو عام کرنے کی باداش میں جان سے ہی چلے گئے تھے. پاکستان کے نامور تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ بھی دست درازی کے بعد حدود میں لا کر چھوڑ دیے گئے ہیں. یہ دراصل میڈیا کے دو حصوں کی نشاندہی کرتا واقعہ ہے. ایک وہ حصہ جو قابل اعتبار اور بہترین ساکھ والا حصہ ہے اور ایک وہ جو گھٹیا درجے کی صحافت اور ساکھ کے حامل ادارے ہیں. ڈان نیوز پاکستان کے قدیم اخبارات میں سے ایک ہے اس کی خبریں لوگوں کے نزدیک معتبر ہوتی ہیں. لوگ اس میں چھپی خبروں پر یقین کرتے ہیں. ان کی سنگینی پر فکر مند ہوتے ہیں پاکستان کے اداروں کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ ڈان نیوز میں چھپی خبر نظرانداز نہ کی جا سکے گی. بین الاقوامی میڈیا اس کو بطور حوالہ چھاپ سکتا ہے. لہٰذا اس خبر پر اضطرابی کیفیت پیدا ہونا لازمی امر تھا. حکومت اور فوج نے جس طرح اس خبر کو پس منظر میں ڈالنے کی کوشش کی وہ مزید وجہ شہرت بنی ہے. المائڈہ کا نام ای سی ایل میں ڈال کر اسے بین الاقوامی شہرت عطا کی. میں خود بہت عرصہ تک اس نام کو ایک خاتون کا نام سمجھتا رہا. اور میرا خیال تھا کہ یہ کوئی غیر ملکی خاتون ہیں اور اپنی مشکل انگریزی کا رعب جھاڑتے ہوئے اپنا کالم لکھ بھیجتی ہیں. اس واقعہ کے بعد نہ صرف اس پاکستانی صحافی سے تعارف ہوا بلکہ پہلی فرصت میں اسے ٹیویٹر پر فالو کر کے آئندہ کے لیے باخبر رہنے کی کوشش کر لی ہے. یہ کیا پہلا واقعہ ہے کہ بند کمروں کے اجلاس کی خبریں باہر آئی ہیں. ڈاکٹر شاہد مسعود، ڈاکٹر دانش، صابر شاکر، بھٹی صاحب، سمیع صاحب اور اینکرز کی ایک طویل فہرست ایسی ہے جو روزانہ شام کو بیٹھ کر سول ملٹری تعلقات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں. ان میں سے بعض کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ یہ بھی بیان کرنے سے باز نہیں آتے کہ آج کی ملاقات میں چیف آف آرمی سٹاف نے وزیراعظم کو مرغا بننے کے لیے کہا اور وزیر اعظم دس منٹ تک مرغا بنے رہے اور آئندہ کے لیے مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے. کیا وجہ ہے کہ وزیراعظم اور حکومت کو بھونڈے الفاظ میں مخاطب کرتے یہ لوگ سارے پروٹوکول انجوائے کرتے ہیں. کیا یہ عسکری اداروں کے چہیتے ہیں یا پھر عوام اور ادارے ان کی اوقات سے واقف ہیں. اور ان کی کی تمام تر بد زبانیوں پر ان کو نظر انداز کر گزرتے ہیں. دوسری ایک بات کہ کیا حکومت اور افواج کے درمیان اختیارات کی کوئی رسہ کشی نہیں ہے. اس کا جواب بھی مبینہ طور پر ہاں میں ہی دیا جا سکتا ہے. پاک فوج ملک میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کی پوری کوشش کرتی ہے. اس کے لیے وہ سیاسی حکومتوں کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں. یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے اور ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے. بینظیر بھٹو جب وزیر اعظم بنیں تو جنرل اسلم بیگ نے باقاعدہ ضمانت لی تھی کہ حکومت دائرے میں مقید معاملات پر اپنی رائے اور اختیار استعمال نہیں کرے گی. نواز شریف جب ساری دنیا کے ساتھ تجارتی معاہدے کرنے کے لیے دوڑ بھاگ کر رہا تھا. اور بھارت کی تجارتی منڈی کا سب سے پہلے ادراک کرنے والا پاکستانی وزیر اعظم بنا تھا. بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کا آغاز کیا تھا واجپائی صاحب نے کشمیر سمیت معاملات کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی. کارگل جیسی حماقت ہماری افواج نے ہی کی تھی. نہ صرف یہ اس وقت حماقت کی تھی بلکہ آج بھی بضد ہیں کہ وہ کشمیر کی آزادی کا نادر موقع تھا. آج کشمیر میں تحریک آزادی اپنے عروج پر. وزیراعظم پاکستان نے ساری دنیا کے ممالک کی مسئلہ کشمیر سے متعلق حمایت حاصل کرنے کے لیے پارلیمانی وفود بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے. واپسی پر پاکستان کے پارلیمانی ممبران یہ کہتے ہیں کہ ہم کشمیر پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں اگر ناکام نہیں ہوئے ہیں تو کوئی بہت بڑی کامیابی بھی حاصل نہیں کر سکے ہیں. وجہ پاکستان کے غیر ریاستی عناصر کی دوسرے ممالک میں مداخلت کی خواہش ہے. کیا افواج پاکستان سے یہ سوال کرنا گناہ ہو گا کہ یہ معسود اظہر، حافظ سعید اور دیگر عسکریت پسند کیوں پال رکھے ہیں. اگر یہ اتنے ہی ضروری ہیں تو انہیں فوج میں کیوں نہیں بھرتی کر دیا جاتا. تاکہ ان پر نظر بھی رکھی جا سکے اور ان کی حرکات کی ذمہ داری بھی قبول کی جا سکے. پاکستان جہاں واقع ہے یہاں اسے مضبوط اور غیر سیاسی فوج کی ضرورت ہمیشہ رہے گی. افواج پاکستان کے ساتھ لوگوں کے مطالبات آئین کی پاسداری کے ہیں. کسی قسم کا کوئی بغض و غداری کا پاکستانی قوم تصور بھی نہیں کر سکتی. پاکستان نے اگر دنیا میں باوقار ملک کی حیثیت سے اپنا مقام بنانا ہے تو اسے سول حکومت کی مضبوط اتھارٹی قائم کرنا ہو گی. بصورت دیگر ہم ویسے ہی رہیں گے جیسے ستر سال پیچھےگزارآئے ہیں
About the Author: Arshad Mahmood Currently in UAE and having an eye on Pakistani politics. Can be found on Twitter @arshad123ajk
کیا پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس نے غیر ریاستی عناصر پر انحصار کیا ہے؟
پاکستان میں ایک ذکر جو تواتر کے ساتھ سنا جاتا ہے وہ کالعدم تنظیموں کا ہے. اس پر بیانیہ کافی تقسیم ہے کئی لوگ کالعدم تنظیموں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو کئی لوگوں کے نزدیک یہ تنظیمات ملکی مفادات کے تحفظ کے کوشاں رہتی ہیں لہذا ان کا قائم رہنا اور ان کی مالی اعانت دراصل ملک و قوم کی عظیم خدمت ہے. ایسا کیوں ہے کیا ریاست ان کے سامنے بے بس ہے یا پھر یہ سب ریاست کی پالیسی کے تحت ہوتا ہے. کہیں ہم کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کے سلسلے میں نفاق کا شکار تو نہیں ہیں؟ کالعدم تنظیموں کی کتنی اقسام ہیں؟ ان کے فنڈز کہاں سے آتے ہیں؟ کیا سب کے مقاصد یکساں ہیں؟ اور کیا ایک پالیسی کے تحت سب کو ہانکنا چاہیے یا پھر کیس ٹو کیس ہم انہیں علیحدہ کریں. ان ہی سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں. سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے ہاں کتنی تنظیمیں ایسی ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا گیا ہے. ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں پچاس سے زائد تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے. ان کو اگر کسی درجہ بندی کے تحت رکھا جائے تو وہ مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں. بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں، پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ برسرِ پیکار مسلح تنظیمیں، فرقہ وارانہ نظریات رکھنے والی تنظیمیں، اقوام متحدہ کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی تنظیمیں اور زبان اور علاقے کی بنیاد پر متحرک تنظیمیں. کیا یہ ساری تنظیمیں عوام اور حکومت کی نظر میں واقعی کالعدم ہیں. اس میں بھی آراء متضاد ہیں ایک تو وہ تنظیمیں ہیں جن کو حکومت نے بغیر کسی دباؤ کے تحت کالعدم قرار دیا ہے عوام اور ریاست اس میں یکسو ہیں. اس میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں اور تحریک طالبان پاکستان کے نام شامل ہیں. جن کے نہ صرف اکاؤنٹس منجمد کیے گئے ہیں بلکہ پوری قوت کے ساتھ انہیں شکست دینے کی کوشش جاری ہے. آگے چل کر ہم ان تنظیموں کے سیاسی اور فکری نظریات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے. اس سے اگلی قسم فرقہ وارانہ تشدد کے الزامات کے تحت کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کی ہے. ان میں زیادہ تعداد دیو بند مکتب فکر اور اہل تشیع نظریات کی حامل تنظیمیں ہیں. ان کے دفاتر بند کر دیے گئے ہیں ان کے اکاؤنٹس بھی منجمد ہیں لیکن اوپر بیان کی گئی تنظیموں کی طرح ان پر عرصہ حیات تنگ نہیں کیا گیا ہے. ان تنظیموں کو پولیس اور حساس اداروں کی واچ لسٹ میں رکھا جاتا ہے تاکہ آئندہ کے لیے ان کی کارروائیوں سے ملک کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جا سکے. اقوام متحدہ نے جن تنظیموں کو کالعدم قرار دیا ہے ان میں لشکر طیبہ(جماعتہ الدعوہ) زیادہ مشہور ہے. اس کے علاوہ الرشید ٹرسٹ اور الاختر ٹرسٹ بھی اقوام متحدہ کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی ہیں. پاکستان پر الزام ہے کہ وہ جماعتہ الدعوہ کے سربراہ اور اس تنظیم پر مناسب انداز میں پابندی عائد نہیں کر سکے ہیں. بلکہ بعض ناقدین یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے ادارے نہ صرف ان کی معاونت کرتے ہیں بلکہ ان کو قانون سے بالاتر مخلوق کا درجہ دیے ہوئے ہیں. یہ کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے پاکستان میں تقریباً سب لوگوں پر عیاں ہے. پاکستان کے اندر ہونے والی تخریب کاری میں جماعتہ الدعوہ کبھی ملوث نہیں پائی گئی ہے. بلکہ پاکستان میں اس تنظیم کا کردار ایک شاندار سماجی تنظیم کا رہا ہے. دو ہزار پانچ کا زلزلہ ہو یا بعدازاں سیلاب اور تھر میں خشک سالی کا مقابلہ کرنے کی جدوجہد. الدعوہ کے کارکن سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں. تو کیا پاکستان کو بین الاقوامی اداروں کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے یکسر پابندی عائد کر دینی چاہیے تھی یا اپنے مفادات کے طابع ایک ایسی پالیسی بناتا جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے والا معاملہ ہو جاتا. یقیناً پاکستان نے یہی پالیسی اپنائی ہے. ہم احساس کمتری میں جلد مبتلا ہو جاتے ہیں اور کسی ایسی غلطی پر جو بہت برسوں کے بعد ظاہر ہو یک لخت کنارے ہونے کی توقع رکھتے ہیں. جو کہ دنیا کے مروجہ نظام میں ممکن نہیں ہے. سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے ہے جس نے غیر ریاستی عناصر پر انحصار کیا ہے؟ یا دیگر دنیا بھی ایسے امور کے تحت دنیا میں برسر پیکار ہے تو جواب یہ آتا ہے کہ ساری دنیا اپنی اپنی ضروریات کے مطابق ایسے عناصر پر انحصار کرتی آئی ہے. القاعدہ جسے کہ دنیا کی خطرناک ترین دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے کسی دور میں دنیا کی محبوب آزادی پسند تحریک تھی اس کے قیام اور ترقی پر اربوں ڈالر خرچ ہوئے ہیں. اسی طرح مکتی باہنی، ہندو مہا سبھا جیسی تنظیموں سے بھارت نے استفادہ حاصل کیا ہے. حزب اللہ سے بیک وقت ایران شام اور مشرق وسطی کی شیعہ طاقتوں نے فائدہ اٹھایا ہے اس کے علاوہ مہدی ملیشیا کا سقوط بغداد میں کردار سامنے دکھائی دے رہا تھا. بلیک واٹر بھی ایسی ہی ایک غیر ریاستی تنظیم ہے. موجودہ دنوں میں دہشت کی علامت سمجھی جانے والی داعش بھی کہیں نہ کہیں سے معاونت حاصل کرتی رہی. اس وقت بھی شام یمن اور دیگر ممالک میں سرگرم لوگ غیر ریاستی عناصر ہی ہیں. ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ؟ ایک طبقہ یہ خواہش کرتا ہے کہ ہم معذرت خواہانہ رویہ اختیار کریں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے آئندہ کے لیے اپنے آپ کو اس طرح کی تنظیموں سے کنارہ اختیار کر لیں. یقیناً یہ بڑا جمہوری اور آئیڈیل نظریہ ہے. لیکن اگر ہمارے اعتراف کو بنیاد بنا کر ہمیں دہشت گرد قرار دے دیا جائے تو ہم کیسے تدارک کریں گے. دوسرا طبقے کی خواہش ہے کہ یہ بدستور مقدس رہنی چاہیے تاکہ جب کبھی ضرورت محسوس ہو تو ان کی خدمات حاصل کی جا سکیں. یہ طبقہ ان تنظیموں کو غزوہ ہند کی ریکروٹمنٹ خیال کرتا ہے. کل کو اگر یہ بے لگام ہو کر اپنی کارروائیوں میں شدت لاتی ہیں اور بھارت یا کوئی دوسرا ملک اقوام متحدہ میں ٹھوس شواہد کے ساتھ حاضر ہو جاتا ہے تو کیا کریں گے؟ اس کا جواب یہ لوگ بھی دینے سے قاصر ہیں. ہونا کیا چاہیے؟ میری تجویز یہی ہو گی کہ ان تنظیموں کو آئین اور قانون کے طابع لایا جائے اور سوچ کو بدلنے پر محنت کی جائے کہ کشمیر سمیت دیگر مسائل پر ہماری سیاسی یا سفارتی حمایت عسکری کارروائیوں سے کہیں کارگر ہے. کشمیر کی تحریک جب تک مکمل مقامی تحریک نہیں کہلاتی لوگوں کے نزدیک جواز مہیا کرتی رہے گی کہ وہ اسے بیرونی عناصر کی جانب سے پھیلائی جانے والی بے اطمینانی ہے. یہ اتنا سادہ اور آسان مسئلہ نہیں ہے تدبر کے ساتھ اس کا حل نکالنا ہو گا عجلت ضرب عضب پر حاصل کیے گئے اجماع کو متاثر کر سکتی ہے. باقی دنیا اور ہماری صورتحال میں جو اصل فرق ہے وہ سول حکومت کا ان تنظیموں پر اختیار نہ ہونا ہے. یہ تنظیمیں برائے راست احکامات لیتی ہیں اور ان کا عمل بعض اوقات حکومت کی پالیسیوں سے متصادم ہوتا ہے. جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں حکومت اور حکومتی اداروں کو پاکستان میں موجود تمام عناصر پر اختیار ہونا چاہیے اسی سے ہم بیرونی دنیا کے دباؤ کامقابلہ کر سکیں گے
About the Author: Arshad Mahmood Currently in UAE and having an eye on Pakistani politics. Can be found on Twitter @arshad123ajk
جنت ارضی کشمیر کا بیانیہ
کشمیر کو کرہ ارض پر جنت قرار دیا گیا ہے. یہ مشاہدہ جس نے بھی بیان کیا وہ فطرت کی حنا بندی کا فن خوب جانتا ہو گا. مگر المیہ یہ ہے کہ انسانوں کی غالب اکثریت فطرت سے زیادہ مادیت پر یقین رکھتی ہے. کشمیر کا جغرافیہ موسم اور قدرتی حسن اپنی مثال آپ ہے. یہاں بہتے دریا خوبصورت جھیلیں سرسبز و شاداب پہاڑ میٹھے پانی کے چشمے کنول کے پھول اور زعفران کے کھیت جہاں بے پناہ کشش رکھتے ہیں وہیں خوبصورت و شاداب چہرے اچھی قد قامت اور اچھے اخلاق کے حامل مرد و زن اضافی خوبی ہیں. لیکن کیا خوشگوار زندگی کے لیے یہی کافی ہے؟ یقیناً نہیں انسانی زندگی کے نکھار اور اسے دیگر معاشروں سے مقابلہ کرنے کے لیے بہت سے دیگر عوامل کی ضرورت ہوتی ہے. جیسے حقیقی جنت میں جانا آسان نہیں ہے ویسے ہی اس تصور کی گئی جنت میں بھی داخلہ آسان نہیں. کشمیر کا ذکر آتے ہی بھارتی مظالم بارود کی بدبو خون کی ندیاں خواتین کی عصمت دری کے واقعات آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی صورت شعور کے پردے پر نمایاں ہو جاتے ہیں. کیا واقعی کشمیر کو اسی مسئلے کا سامنا ہے؟ میرے خیال میں یہ ایک بڑا اور سب سے حل طلب مسئلہ ہے. لیکن یہ واحد مسئلہ ہر گز نہیں ہے. کشمیر کے مسئلے کو از سر نو سمجھنے کی ضرورت ہے. اس پر حد سے زیادہ حساسیت پیدا کر لی گئی ہے. جس سے بحث محدود ہو گئی ہے. کشمیر محض متنازعہ علاقہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور پر انسانی مسئلہ ہے. سب سے بھیانک بات کشمیریوں کی عدم شناخت ہے. تین نسلیں بغیر شناخت کے درگور ہو گئی ہیں اور آگے بھی آثار نظر نہیں آ رہے جس سے مایوسی اور بد دلی کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے.
بھارت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ابھی بہت کچھ لکھا جانا ہے اس ذیل میں بہت یکسانیت پائی جاتی ہے لہٰذا آج کے مضمون میں اس پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے ازادکشمیر کے مسائل اور یہاں پر بسنے والے افراد کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل میں عدم دلچسپی کو موضوع بحث بنایا جائے گا. کشمیر کا جہاں بھی ذکر آتا ہے اس میں کشمیریوں پر بات کم اور جغرافیہ پر بات زیادہ ہوتی ہے. بالخصوص آزاد کشمیر کے باسی تو اس ذیل میں کہیں نظر ہی نہیں آتے ہیں. اس کی وجوہات مختلف لوگوں کی نظر میں مختلف ہوں گی. میرا مشاہدہ عمومی نوعیت کا ہے اور اسے عمومی انداز میں ہی پیش کروں گا. میں کوشش کروں گا کہ کہ ان مسائل کی جانب توجہ مبذول کراؤں جن کی بنیاد پر ہم لوگ اپنے اولین مسئلہ سے پہلو تہی کرتے ہیں. سیاسی پس منظر، معاشی مسائل، نظام تعلیم اور عدم تسلسل وہ بنیادی عوامل ہیں جنہوں نے لوگوں سے غور فکر کا ہتھیار چھین لیا ہے. اب فرداً فرداً ان امور کا اجمالی جائزہ پیش کرتا ہوں.
سیاسی پس منظر ریاست کے ابتدائی ماہ و سال میں شرح خواندگی خوف ناک حد تک کم تھی اس لیے ایک بڑی اکثریت اپنے نفع و نقصان سے نابلد تھی. یہ جہاں ایک بہت بڑی کمزوری تھی وہیں اگر اسے درست انداز میں استعمال کیا جاتا تو یہ بہت بڑی طاقت بن سکتی تھی. نظریاتی وحدت کے لیے اس سے سازگار کیفیت کوئی نہیں ہو سکتی کہ آپ کے مخاطب افراد آپ کو پوری یکسوئی کے ساتھ سنتے ہوں اور آپ کی ہر بات پر یقین کرتے ہوں. لیکن بدقسمتی سے اس کمزوری کو کشمیریوں کی بیوقوفی سے تعبیر کیا گیا. قدرت اللہ شہاب مشتاق گورمانی کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک کتابچہ لہراتے ہوئے لوگوں کو کہا کہ یہ قرآن ہے اور ہم کشمیر کو وہ تجربہ گاہ بناتے ہیں جہاں رب کی دھرتی رب کا نظام ہو گا. لوگ انتہائی جذباتی ہو کر یہ سب سن رہے تھے اور زیادہ تر آبدیدہ تھے. واپسی پر جب انہوں نے گورمانی سے دریافت کیا کہ کیا یہ واقعی قرآن تھا تو مسکرانے لگے. ان لوگوں کو سازش کے ذریعے اپنا گرویدہ بنانے کی کوشش کی گئی جو بدگمانی کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے. اس کے بعد ایک مسلسل سلسلہ شروع ہو گیا اور جو اختلاف کی جسارت کرنے کی کوشش کرتا وہ غدار سمجھا جانے لگا. تحریک آزادی کشمیر کے کئی ہیرو گمنام ہو گئے. یہاں تک کہ شیخ عبداللہ جیسا فرد بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا سرکاری مہمان ہو گیا. اور کشمیری عملاً بھارت نواز اور پاکستان نواز میں تقسیم ہو گئے اور یہ تقسیم ہنوز برقرار ہے. اس کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا وہ دونوں جانب کے کشمیریوں کے درمیان رابطوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ دونوں جانب مقیم لوگ ایک دوسرے کے لیے غیر ہو گئے.
بعد ازاں جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن تسلیم کر لیا گیا اور رہتی امیدیں بھی دم توڑ گئیں. اس کے بعد ایکٹ انیس سو چوہتر کے نفاذ نے ریاست کو باقاعدہ کالونی بنا دیا گیا اور چیف سیکریٹری اور وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کو وائسرائے کی حیثیت حاصل ہو گئی. کشمیریوں کی نمائندگی ان کے ہاتھوں سے نکل گئی. موجودہ نظام اسی انتظام کے زیر سایہ پھل پھول رہا ہے.
معیشت اگر جغرافیہ کے تابع ہو تو وہ فطری انداز میں آگے بڑھتی ہے جس طرح پنجاب اور سندھ میں زراعت نے ایک بڑی اکثریت کو خوشحالی بہم پہنچائی ہے. ساحلی علاقوں میں صنعت نے ترقی کی ہے. سرحدی علاقوں میں تجارت نے فروغ پایا ہے ویسا کوئی انتظام کشمیر میں نظر نہیں آتا. ہم نے اگر جغرافیائی اہمیت کو استعمال نہیں کیا ہے تو ساتھ ہی ثقافت کو پس پشت ڈال کر جو تھوڑی بہت معاشی سرگرمیاں تھیں انہیں بھی مسدود کر دیا ہے. فی الحال کشمیر کا معاشی نظام کسی طفیلی معاشرے جیسا ہے. محکمہ تعلیم، برقیات پولیس اور کسی حد تک سول سروس میں نوکری اختیار کرنے کے علاوہ ذرائع آمدنی کے بہت ہی محدود ہیں. ریاست کے زیادہ تر لوگ بیرون ملک روزی کماتے ہیں. صنعتوں کی عدم موجودگی میں بہتر ہنر مند پیدا نہیں ہو رہے. پولی ٹیکنیک اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹر کی تعداد بھی آبادی کے تناسب سے مطابقت نہیں رکھتی جس کی وجہ سے لوگ انتہائی نچلے درجے کی ملازمت اختیار کرتے ہیں. اس لیے عموماً لوگ فیصلہ سازی کے عمل میں دلچسپی نہیں رکھتے.
نظام تعلیم کو اگر شرح خواندگی کے تناظر میں دیکھیں تو اس کو پاکستان کے دیگر حصوں سے بہتر قرار دیا جا سکتا ہے. لیکن اگر فکری تناظر میں دیکھا جائے تو یہاں بھی حالت الحفیظ و الامان والی ہے. دس دس کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد طلباء و طالبات کو بنیادی تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے. اساتذہ کی غالب اکثریت سیاسی جماعتوں کے دم چھلوں کی صورت اختیار کر گئی ہے. نصاب تعلیم کے حوالے سے صورتحال مزید ابتر ہی کہلائی جا سکتی ہے. پہلی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک کی ساری کتابیں حفظ بھی کر لی جائیں تو مجھے یقین ہے کہ ہمارا طالب علم کشمیر کی تاریخ اور جغرافیہ پر ایک مضمون لکھنے کے قابل بھی نہیں ہو گا. ہمیں اس میدان میں توجہ کی اشد ضرورت ہے.
عدم تسلسل ہمارا سب سے بھیانک معاشرتی رویہ ہے. جنگ آزادی کشمیر سے لے کر آج تک ہر میدان میں ادھورے کام ہمارے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں. تکمیل پاکستان کی منزل اگر مقصود ہے تو ہمیں انسانی وسائل کو بروئے کار لانے کی محنت کرنا ہوگی. جب تک ہم اپنے نوجوانوں کی فکری تربیت کا بندوبست نہیں کریں گے آپیں تپسی تے ٹھس کر سی والی جگہ پر کھڑے رہیں گے
ارشد محمود
آپ ان کو ٹویٹر پر فالو کر سکتے ہیں ۔ @arshad123ajk
کامیابی کے سو باپ اور ناکامی یتیم ہوتی ہے۔ ارشد محمود
مولانا مودودی رح کے یہ الفاظ اپنے اندر ایک سبق بھی رکھتے ہیں اور سوچنےکی دعوت بھی دیتے ہیں “کامیابی کے سو باپ اور ناکامی یتیم ہوتی ہے” میں ایک اضافے کے ساتھ اپنی بات آگے بڑھانا چاہوں گا کہ کامیابی کوئی بھی حاصل کر سکتا ہے مگر اس کامیابی کو ہضم کرنے کا ظرف ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتا. یہ بات انفرادی اور اجتماعی طور پر پرکھی جا سکتی ہے. گزشتہ کل پاکستان کی تاریخ میں ایک عظیم دن تھا. اس روز پاکستان کی پہلی گہرے سمندر کی بندرگاہ کا باضابطہ افتتاح کردیا گیا ہے. اس روزیہاں سے ایک بہت بڑا کارگو جہاز سامان لے کر مشرق وسطٰی کی جانب عازم سفر ہو گیا. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس قومی سطح کی کامیابی پر تمام گروہوں کی جانب سے خیر مقدم کیا جاتا اور اسےقومی منصوبے کے طور پر قبول کر لیا جاتا اور اس کی استعداد کار میں اضافے کی خاطر مشورے دیے جاتے. جن جن افراد اور اداروں نے جس جس سطح پر اس کارخیر میں حصہ لیا تھا ان کی ستائش کی جاتی. لیکن کل سوشل میڈیا اور میڈیا پر عجیب ماحول برپا تھا. پاکستان میں صف اول کے صحافی جناب حامد میر کے کالم نے کل خصوصی شہرت حاصل کی اس کو کرید کرید کر خوب گرد اڑائی گئی. میرصاحب ان کے پیشوا بنے بیٹھے تھے جو انہیں ازل سے بھارتی ایجنٹ لادین طبقے کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں. میر صاحب نے کوئی علمی بد دیانتی کی یا نہیں یہ اللہ یا پھر وہ بہتر جانتے ہوں گے. البتہ ان کی اس کاوش سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر یہ راز بھی کھلا کہ سابق صدر جناب آصف علی زرداری ہی اس منصوبے کے اصلی اور بڑے جد امجد ہیں. یہ غلط فہمیاں کیوں پیدا ہوئیں کہ ایک قومی منصوبے پر چند لوگوں کے چہرے اترے اترے تھے اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں. اس منصوبے کو مکمل کرنے کی خواہشات ایک زمانے سے کی جا رہی ہیں. میاں نوازشریف جب پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تھے اس وقت ہی انہوں نے انفراسٹرکچر کی بہتری اور جغرافیائی اہمیت کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی عملی کوششیں شروع کر دی تھیں موٹر ویزاس منصوبہ میں کلیدی اہمیت کی حامل قراردی گئیں تھیں. جناب سرتاج عزیز صاحب کی ٹریڈ پالیسی کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے. پھر محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی گہرے سمندر کی بندرگاہ کو تعمیر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا حالات نے اجازت نہ دی اور ان کی حکومت کو بر طرف کر دیا گیا. نہیں تو شاید اس خواہش کی کوئی عملی تصویر ہمیں نصیب ہو جاتی. میاں محمدنواز شریف جب دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے با قاعدہ بجٹ میں جگہ دینے کی کوشش کی. نوے کی دہائی اس لحاظ سے بد قسمت رہی کہ وزراء اغظم کو شدید سیاسی کشمکش کا سامنا رہا اور حکومتیں گرانا ایک محبوب مشغلہ رہا. گوادر کی قوی ترین باز گشت پرویز مشرف کے دور میں سنی گئی ایک طویل مدت تک وہ پاکستان کے داتا رہے. البتہ ان کے گرد دیمک کیطرح لگے گروہوں نے گوادر پورٹ سے زیادہ تشہیر جی ڈی اے کے پلاٹس کی، کی اور سلیکون ویلی کے بڑے بڑے اشتہارات والےبورڈ لاہور کراچی اسلام آباد کی سڑکوں پر پھیل گئے تھے راتوں رات امیر ہونے کے خواہشمندوں کی کمی ہمارے یہاں ویسے بھی نہیں ہے اس لیے اس گروہ نے اچھا مال بنایا. اس کا نقصان یہ ہوا کہ بلوچستان کے رہنے والے لوگوں کو اقلیت میں بدل جانے کے خوف نے اپنے حصار میں لے لیا. رہتی کسر جناب اکبر بگٹی کی شہادت نے پوری کر دی. بلوچستان ایک طویل عدم استحکام کا شکار ہو گیا. جناب آصف علی زرداری جب مسند اقتدار پر بیٹھے تو انہوں نے بلوچستان کی صورتحال کا ادراک کرنے میں دیر نہیں کی سابقہ ادوار کی کوتاہیوں پر بلوچ قوم سے معافی مانگی اور آغاز حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان کیا. اس منصوبے میں اگر انتظامی بےقاعدگیاں نہ ہوتیں تو اس کے بہت ہی دور رس سیاسی نتائج برآمد ہوتے. گوادر پورٹ کا انتظام سنگاپور پورٹ اتھارٹی کے پاس تھا چین کے حوالے کرنے کی کوشش تیز کر دی گئیں. اس کے بعد جناب نواز شریف وزیر اعظم بنے تو انہوں نے قوم پرست رہنماؤں کوشریک اقتدار کیا جس سے عدم ملکیت کے خوف میں واضح کمی آئی. حالات اگر ان کی گرفت میں رہتے تو کل کے افتتاح میں آنےوالے افراد کا استقبال ہو سکتا ہے جناب اختر مینگل اور شاہ زین بگٹی کرتے. موجودہ حکومت نے بلوچستان کے انفراسٹرکچراور چین کو اپنی تجارتی پالیسی میں مرکزی جگہ دی. بنیادی نوعیت کے عملی اقدامات کیے اور فرینڈز آف پاکستان جیسے لولی پاپس پر کان نہیں دھرا یہاں سے گوادر پورٹ کے نئے عہد کا آغاز ہوا. جب نوازشریف ایبٹ آباد جلسے میں گوادر سے خنجراب تک ریل اور موٹر وے کا اعلان کررہے تھے تو ہم بھی دوستوں میں بیٹھے یہی کہتے تھے کہ میاں صاحب لمبی چھوڑ رہے ہیں. البتہ میرا پیپلزپارٹی کا دوست یہ کہہ رہا تھا کہ یار یہ بندہ پاگل ہے یہ کچھ بھی کر سکتا ہے اسے انڈر اسٹیمیٹ نہ کریں. بہرحال مسلم لیگ کی حکومت جب وجود میں آ چکی تھی تب بھی پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبہ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا جاتا رہا. کئی رہنما ریکارڈ پر موجود ہیں جو اس انویسٹمنٹ کو قرضہ قرار دیتے تھے. سیاسی جماعتوں کی مجبوری ہے کہ وہ ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں جمہوریت کی مضبوطی میں رکاوٹیں ہمیشہ موجود رہتی ہیں. اس لیے وہ ترقیاتی منصوبوں کو کیش کروانے کے درپے رہتی ہیں اور یہی جھگڑا کل دیکھنے کو ملا. پورٹ کی تعمیر میں بلاشبہ پرویزمشرف اور زرادی صاحب کا حصہ موجود ہے. لیکن اس کی موجودہ توسیع اور راہداری کے لیے کثیر سرمائے کی عملی شکل کا سہرا موجودہ وزیراعظم جناب محمد نواز شریف کے سر جاتا ہے. آئیں عہد کریں کہ سیاسی و فروعی اختلافات کو ملکی میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے. اچھائی اگر مخالفین سے بھی سرذد ہو جائے تو اس کا اعتراف کر لینے میں شان کم نہیں ہو گی.
About the Author: Arshad Mahmood Currently in UAE and having an eye on Pakistani politics. Can be found on Twitter @arshad123ajk
PANAMA Ka Hangama | Arshad Mahmood
PANAMA Ka Hangama | Arshad Mahmood | 16 Nov 2016
پاناما کا ہنگامہ یوں تو کوئی بھی معاملہ عدالت میں ہو تو اس پر رائے زنی سے اجتناب اچھا ہوتا ہے. لیکن چونکہ پاناما کا مسئلہ محض قانونی ہی نہیں ہے بلکہ یہ بیک وقت قانونی سیاسی اور خواہشات کی تکمیل کا مسئلہ ہے لہٰذا اس کا جائزہ لینے میں وہ قباحت نہیں ہے جو دیگر عدالتی کیسز کے دوران ہو سکتی ہے. اس مسئلے کا ایک تعلق تو یہ ہے کہ پاناما میں موجودہ حکمران خاندان نے کک بیکس اور کرپشن کے ذریعے آف شوور کمپنیاں قائم کی ہیں ان کمپنیوں کے قیام میں پاکستان سے پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بھیجا گیا ہے یہ وہ بنیادی نقاط ہیں جس پر عدالت نے شواہد اور ثبوتوں کو بنیاد بنا کر کر فیصلہ کرنا ہے اب یہ فیصلہ کیا ہو گا یا ہونا چاہیے یہ عدلیہ کا استحقاق ہے اور اسی تک محدود رہنا چاہیے. ہم آج جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ اس معاملہ کی تہہ میں کون سی خواہشات جنم لے رہی ہیں اور کس طرح افراد یا ادارے خود کو نئی صورتحال سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں. سب سے بڑی خواہش وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کی کی جا رہی ہے. یہ تو ایسا دلکش خواب ہے کہ جسے دیکھتے ہی نہیں بلکہ سوچتے ہی چند لوگوں کے من میں لڈو پھوٹ پڑتے ہیں. تحریک انصاف کی جانب سے ایسی خواہشات کا اظہار کھلے لفظوں میں کیا جاتا رہا ہے. لیکن پے در پے ناکام سیاسی حکمت عملیوں نے انہیں اس قدر بے آبرو و نڈھال کر دیا ہے کہ کہیں اگر یہ خواب حقیقت میں بدل بھی گیا تو انہیں شاید اس کے فیوض و برکات سمیٹنے کا موقع نہ مل سکے گا. ایم کیو ایم کو ربردستی لاوارث کرنے کی ایک کوشش پچھلے کئی مہینوں سے جاری ہے اور منصوبہ سازوں کو اس میں بہت حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن ابھی تک مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے ہیں. خواہشات کے گھوڑے دوڑانے والوں کا پہلا گھوڑا تو گدھا ثابت ہو چکا ہے لہٰذا پلان بھی اور سی کسی نہ کسی درجے پر زیر غور ہوں گے. اس صورت حال پر اصل کھے ڈالنے کا کام جناب فاروق ستار ہے. یہ کمزور جسم اور مضبوط اعصاب والا شخص نہ صرف اپنے ساتھیوں کا وارث ثابت ہوا ہے بلکہ اردو بولنے والوں کو اپنے دم پر سیاست کرنے کے قابل بھی بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے. ابھی تک حتمی کامیابی نہیں کہا جا سکتا. کراچی کے بسنے والے افراد کا رویہ کیا ہوگا یہ ابھی طے ہونا باقی ہے. پرویز مشرف جن کی جماعت نے چاروں صوبوں میں بے مثال ناکامی دیکھی ہے اور ذاتی حیثیت میں سیاست کی ریس میں گھوڑے کے بجائے گدھے ہی ثابت ہوئے ہیں. ان سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ سابقہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے ان کی چھتری میں جمع کر کے قومی دھارے میں ہانکے جائیں تو وہ کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں. بلکہ اس سے بھی ایک ہاتھ آگے نکل کر ن لیگ کے علاوہ تمام مسلم لیگوں کو سابقہ ایم کیو ایم میں ضم کر کے متحدہ مسلم لیگ کا کوئی چوں چوں کا مربع اکٹھا کیا جائے. ایسے میں تیار ہونے والی سیاسی حلیم یقینی طور پر ایسی ہی نظریاتی ہو گی جتنی اسٹیبلشمنٹ کی بطن سے جنم لینے والی جماعتیں ہوتی ہیں. اس صورت حال پر پیپلز پارٹی سب سے زیادہ امتحان کا شکار ہے. اسے ایک جانب تو اپنا جمہوری چہرہ محفوظ رکھنا پڑ رہا ہے اور دوسرے جانب پیپلزپارٹی پنجاب کی جانب سے دباؤ کا بھی سامنا ہے کہ اگر تاخیر ہو گئی تو ٹرین نکل جائے گی. یہ کشمکش میڈیا پر واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے. بالخصوص جناب اعتزاز احسن اور جناب قمر زمان کائرہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا دکھائی دے رہا. پنجاب جو کبھی اسٹیبلشمنٹ کی عملی تفسیر دکھائی دیتا تھا گزشتہ کچھ سالوں سے ان کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے. اسے فتح کرنے کے لیے گدھے گھوڑوں کی تمیز کیے بغیر حملہ آور ہونے کا ارادہ کیا جا رہا ہے. مسلم لیگ ن نے جنوبی پنجاب کے چند اضلاع کے علاوہ باقی جگہوں پر اپنا قبضہ کافی مضبوط رکھا ہوا ہے. مسلم لیگ ن کی کمزوری کی ایک ہی صورت باقی ہے کہ جناب میاں نواز شریف سیاسی منظر نامے سے گم ہو جائیں. بصورت دیگر مسلم لیگ ن پاکستان کے چاروں صوبوں میں پہلے سے بہتر پوزیشن میں نظر آئے گی. حکمران جماعت سیاسی طور پر پاناما کو بہتر طور پر ڈیفنڈ کر سکتی تھی مگر ابتدا ہی اسے عزت بے عزتی کا مسئلہ بنا کر منطق سے خالی کر دیا تھا. چوہدری نثار علی خان نے ابتدا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جو جواب صحافیوں کو دیا تھا وہ بہت حد تک مناسب اور بہتر سیاسی حکمت کی عکاسی کرتا تھا. پاناما لیکس کا مسئلہ کسی بھی سطح پر مسلم لیگ کا مسئلہ نہ تھا بلکہ یہ میاں نواز شریف صاحب اور ان کی فیملی کا نجی معاملہ تھا. اسے اسی سطح پر حل ہونا چاہیے تھا. اب بھی وقت ہے کہ وزراء کی ظفر موج کے بجائے وکلاء پر انحصار کیا جائے. وکلاء کے پاس موجود مواد اچھی طرح سے ثابت کر سکتا ہے کہ مے فیئر کے فلیٹس کے لیے کسی قسم کی منی لانڈرنگ نہیں ہوئی اور نہ ہی ٹیکس چوری کیا گیا ہے. اس مسئلے کے سیاسی اثرات کافی عرصہ تک موجود رہیں گے پریس کانفرنسز یا ٹالک شو اس کے اثرات کو کم نہیں کر سکیں گے یہ وہ داغ یا زخم ہوں گے جن کو عدالتی فیصلے کی روشنی میں وقت دھو ڈالے گا یا پھر ناسور بنا دے گا. حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کو کم سے کم سطح پر رکھا جائے
About the Author: Arshad Mahmood Currently in UAE and having an eye on Pakistani politics. Can be found on Twitter @arshad123ajk
ہماری جمہوریت نے اسی دن پرائمری امتحان پاس کر لیا تھا جس دن سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری صاحب کو پورے پروٹوکول کے ساتھ ایوان صدر سے رخصت کیا تھا
توحید اسلام کی بنیاد ہے. اللہ ہی مالک کل اور ساری طاقتوں کا سر چشمہ ہے. انسان اس کی مخلوق اور اپنی ہر طاقت و خصلت میں اس کا محتاج ہے. خواہ کوئی ظلم کی انتہا پربیٹھا فرعون ہو یا رحمت العالمین کا لقب پانے والے نبی اکرم ص. کوئی بھی یہاں مستقل نہیں رہا. یہ عمل پہلے انسان سے لے کر آخری انسان تک جاری رہے گا. کوئی بھی یہاں ناگزیر نہیں کوئی بھی یہاں نہ رہے رب، رب ہی رہے گا اور سارے سر بسجود پڑے رہیں پھر بھی وہ رب ہی رہے گا. عقیدہ توحید انسان کو مضبوط کرتا ہے ہر خوف سے آزاد کرتا ہے. خوشی پر شکر ادا کرنے اور تنگی پر صبر کرنے کا حوصلہ عطاء کرتا ہے. ہونا تو یہ چاہیے کہ اہل توحید کے ہرعمل سے بندگی جھلکنی چاہیے اور ہربرائی سے لا حولہ ولا قوۃ الا باللہ کہہ کر گزر جانا چاہیے لیکن چونکہ مالک نے انسان میں سرکشی رکھی ہے ساتھ میں ایک کھلے دشمن (شیطان) کو مستقل برسرِپیکار رکھا ہے. اس لیے یہ فرشتوں سے مختلف مگر ممتاز ہے. عالم دین نہیں ہوں اس لیے واعظ یہیں تمام کرتا ہوں کیونکہ بغیر عمل کے الفاظ میں وہ تاثیر نہیں ہوتی جس کا یہ موضوع تقاضا کرتا ہے. کل شام کو پاکستان کی افواج کے سربراہ کو نامزد کر دیا گیا ہے. جو اسی ماہ 29 تاریخ کو اپنی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں. یہ ایک معمول کی کارروائی تھی جو بخیریت اپنے انجام کو پہنچی ہے. ہمارے یہاں فوج کے سربراہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اس لیے گزشتہ کچھ ماہ سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا رہا. کون بنےگا کروڑ پتی کی سیریل کا سا سماں باندھ دیا گیا ہر کوئی مستقبل شناسی کا دعویدار دکھائی دے رہا تھا. کئی افراد نے تو اپنے تجزیوں میں تقریباً تمام متوقع امیدواروں کو بیان کردیا تھا تاکہ بوقت ضرورت دانشوری کی سند کے طور پر دکھایا جا سکے. جنرل قمر جاوید باجوہ کیسے ثابت ہوں گے یہ وقت ثابت کرے کل سے وہ تاریخ کے گھوڑے پر سوار ہو گئے ہیں. امید اور دعا کے ساتھ انہیں خوش آمدید کہتا ہوں کہ اللہ رب العزت انہیں اس عہدے کی توقیر کو سلامت رکھنے کی توفیق عطا فرمائے. ہمارے ہاں دو اقسام کے دانشور بکثرت پائے جاتے ہیں ایک وہ جو مردہ پرست ہیں اور ایک وہ جو چڑھتے سورج کے پجاری ہیں. حسن اتفاق دیکھیں کہ کبھی کبھی ایک ہی شخص دونوں گروہوں کا محبوب ہوتا ہے لیکن فرق صرف وقت کا ہوتا ہے. ہماری جمہوریت نے اسی دن پرائمری امتحان پاس کر لیا تھا جس دن سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری صاحب کو پورے پروٹوکول کے ساتھ ایوان صدر سے رخصت کیا تھا. طاقتور حلقے اسی دن شدید بے چینی کا شکار ہو گئے تھے. رہتی کسر موجودہ حکومت کے تاحال بے نتیجہ کیس جو آئین کی آرٹیکل چھ کے تحت فاتح کارگل کے خلاف درج کیا گیا تھا نے نکال دی. سول ملٹری تعلقات کو جتنا مرضی خوشگوار بیان کیا جائے ایک اعصابی جنگ بہرحال دونوں جانب لڑی جا رہی تھی. ایسی جنگوں میں نہ تو شہید ہی نظر آتے ہیں اور نہ غازی البتہ ان کے اثرات کئی سالوں بعد واضح ہوتے ہیں. گزشتہ تین سالوں میں پرویز مشرف کا ٹرائل بھارت کے ساتھ تعلقات اور افغانستان میں امن قائم رکھنے کی خواہشات پر کسی بھی موقع پر سول و عسکری قیادت ایک پیج پر نہیں رہیں. البتہ کراچی آپریشن اور آپریشن ضرب عضب کے کئی نقاط پر اتفاق موجود تھا. میڈیا اور چند سیاسی حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے کہ ملک کے اصل باس جنرل راحیل شریف ہیں اور وزیراعظم ایک کٹھ پتلی کی حیثیت رکھتے ہیں. اس تاثر سے قومی سطح پر معلوم نہیں کیا کشید کیا گیا ہو گا لیکن بین الاقوامی سطح پر ذلت ہی کمائی گئی ہے. دھرنوں کی اصل فاتح ہماری اسٹیبلشمنٹ رہی ہے جس نے بھارت افغانستان اور مشرف معاملے پر سہولیات حاصل کیں اور اپنے ابتدائی مقاصد حاصل کر لیے لیکن مجموعی طور پر فاتح نواز شریف حکومت رہی جس نے مشرف کے کیسز تا حال قانونی طور پر بحال رکھے ہوئے ہیں. بھارت کی سفارتی کامیابیوں کے مقابل ہماری کمزوریوں کو عسکری اداروں پر باور کرایا کہ موجودہ بین الاقوامی حالات میں یہ معاملات سنبھالنا آپ کے بس کی بات نہیں. نہ ہی یہ ایوب خان کا دور ہے اور نہ ہی سرد جنگ کا زمانہ. امریکہ نے چین کے ساتھ تعلقات کا آغاز کر کے اور سویت یونین کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اپنے مقاصد پورے کر لیے ہیں تاوقتیکہ امریکہ کسی نئی جغرافیائی تبدیلی کا ارادہ نہیں کر لیتا سفارتی سطح پر عسکری قیادت کی اہمیت وہی ہے جو ان دنوں شیخ رشید احمد صاحب کی پارلیمنٹ میں. آرمی چیف کی مقررہ وقت پر تعیناتی نے حکومت کو درجہ ہشتم کا امتحان پاس کرنے میں مدد فراہم کی ہے. سول حکومتوں کو یونہی محتاط انداز میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے جس دن ہماری جمہوریت نے گریجویشن مکمل کر لی اس وقت آرمی چیف کی تبدیلی رات نو بجے کے خبرنامہ میں لوگ سنا کریں گے. نواز شریف کی اس کامیابی پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں اس مبارک باد کے اس گلدستے کے چند پھول سابق صدر محترم آصف علی زرداری کی خدمت میں پیش کردیے جائیں جنہوں نے ٹھنڈا کرکے کھانے کی روایت ڈالی ہے. وزیراعظم اس طویل اعصابی جنگ کو جیت کریقیناً راحت محسوس کر رہے ہوں گے. لیکن راحت کواستراحت میں مت بدلیں ابھی بہت کام باقی ہیں. بجلی کے بحران پر قابو پانا ہے. دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنا ہے. اداروں کی مضبوطی ابھی سوالیہ نشان ہے. صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر پولیس کی اصلاح کرنےکی ضرورت ہے. سسیاسی درجہ حرارت میں کمی لانی ہے. بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ہو گا. نعرے اور جنگیں کم ہی مفید ثابت ہوتی ہیں. دنیا بدل رہی ہے خود کو زیادہ سے زیادہ موزوں ملک بنانے کے لیے جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے. حکومت کومدت مکمل کرنے کا ہنر تلاش کرنا ہوگا. ساتھ ہی ترقیاتی منصوبوں کو بروقت مکمل کرنا ہو گا. کرپشن کےالزامات کا جواب دینے کے لیے بہترین جگہ عدالت ہی ہے عمران خان کی مدد سے حکومت کو یہ موقع میسر آ گیا ہے. میڈیا پربیٹھے نجومیوں کو اپنا کام جاری رکھنے دیا جائے. بقول غالب “درد کا حد سے ببڑھنا ہے درد کا دوا ہونا” ہم سب دفن ہو جائیں گے ہماری نسلوں میں سے کوئی ہمیں یاد نہیں کرے گا. ہاں جو تاریخ میں زندہ رہیں گے لوگ انہیں یاد رکھیں گے.
Arshad Mahmood
@arshad123ajk
میڈیا ہاوس کی سیر
میڈیا ہاوس کی سیر
میرا ایک دوست بڑے شہر میں کسی میڈیا ہاؤس میں آفس بوائے لگ گیا تھا ۔ گاوں میں سب اس کی ترقی پر بڑے خوش تھے ، آئے دن فیس بک پر وہ بڑے بڑے سیاستدانوں صحافیوں کے ساتھ اپنی سلفیاں ڈالتا رہتا تھا اور میں بس نائس پک لکھ کر اپنی جلن دور کر لیتا تھا ۔ پھر ایک دن یوں ہوا میرا اسی شہر کسی کام سے جانا ہو گیا ۔ میں شہر پہنچا کام کیا اور فارغ تھا کہ دوست کی یاد آ گئ فوراََ نمبر ملا کر فون کھڑکا دیا ،،،، مگر نمبر ناٹ سونڈنگ پونڈنگ ہو گیا میں نے پھر ملایا نمبر لگ گیا اسلم نے فون اٹھایا ۔
اسلم : ہاں اوئے سرور بغیرتا کیویں یاد آ گئی میری
میں: بس یار ایویں تیرے وطن آیا سی سوچیا سلام ٹھوکی جاواں
اسلم : واہ اوئےےےے جلدی آ جا جلدی میں بھی بہت اداس تھا کوئی گاؤں والا نہیں ملا کافی عرصے سے
اسلم نے مجھے ایڈریس سمجھایا میں نے رکشے والے کو وہی ایڈریس بتایا 10 منٹ بعد میں ایک عالی شان بلڈنگ کے باہر کھڑا تھا
میں نے مس کال کر کے اسلم کو اشارہ دے دیا تھا کہ میں گیٹ کے باہر پہنچ گیا ہوں آ جاو ۔ اسلم نے فون کیا اندر ہی آجاو،
میں گیٹ کی طرف بڑھا سکیورٹی گارڈ نے سیٹی بجا دی اور کہا رُک جا کاکا ” اس نے مجھے پہچان لیا تھا کہ اے پینڈو ہی ہے ” ٹائٹ تلاشی لینے کے بعد مجھے اندر جانے کی اجازت مل گئی ۔
اندر داخل ہوا تو ایک سائیڈ پر مہنگی گاڑیوں کی لمبی قطار تھی ایسا لگ رہا تھا کسی شو روم میں آ گیا ہوں اتنے میں اسلم آ گیا کہتا پینڈو کیا گاڑیوں کی گنتی کر رہے ہو یہ گاڑیاں ہمارے اینکرز کی ہیں آ جاو تمہیں چائے پلاوں، ہم سیدھا وہاں سے کنٹین میں چلے گئے جہاں بہت سارے لڑکے لڑکیاں بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے ٹیبلز پر پڑے ان کے بیج اور مائیکز سے لگ رہا تھا یہ سارے فلیڈ رپورٹرز ہیں ۔
ہم بھی ایک خالی ٹیبل دیکھ کر بیٹھ گئے اسلم آرڈر دینے چلا گیا۔
میں ادھر اُدھر لوگوں کو دیکھنا شروع ہو گیا پھر میں نے پاس ایک ٹیبل پر کان در لیے اور ان کی باتیں سننا شروع ہو گیا،
اچھا معیذ کیا بنا اسائنمنٹ کا ؟
رمیض: یار کچھ بھی نہیں جب تک میں وہاں پہنچا تو کچھ بھی نہیں تھا باس کو فون کیا کہ سر وہاں تو کوئی بھی نہیں سب امن شانتی ہے باس نے کہا مجھے نہیں پتہ مجھے رات میں یہ خبر چلانی ہے ۔ پھر میں نے دس پندرہ بندے پکڑے اُن کو سٹوری سمجھائی اور جوابات بتائے اور آخر میں کہا کہ آپ سارے ہاتھ اوپر کر کے فلاں کے خلاف نعرے لگائےآپ سب رات ٹی وی پر آئیں گے سب خوش ہو گئے بس یار بن ہی گئی ہے باس نے پاس کر دی ہے ۔
معیذ: ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا کمال ہے یار
اتنے میں اسلم آ گیا ہم چائے پی رہے تھے اور پرانی گاؤں کی یادیں تازہ کر رہے تھے کہ اچانک ایک طرف سے مجھے بم بم کی آوازیں سنائی دیں میرے تو ہاتھ پیروں سے جیسے نکل گئی ہو فوری اونچی اونچی آواز میں کلمہ پڑھنا شروع ہو گیا اور ٹیبل کے نیچے گھس گیا لا اللہ لا اللہ کا ورد جاری پیسنے چھوٹ رہے تھے
اچانک میں نے نوٹ کیا یہ صرف میں ہی تھا باقی سارے مجھ پر ہنس رہے تھے اور لوگ ٹیبل کے ارد گرد اکٹھے ہو چکے تھے کئی تو مجھے موبائل پر بھی فلما رہے تھے ، میں بہت شرمندہ بھی تھا اور حیران بھی یہ ہو کیا رہا بم کہاں کون کیا تھا ۔
اسلم نے مجھے اٹھایا اور کہا ماما ہوش کر کچھ نہیں ہوئیا چل میرے نال آ تینو پتہ لگے کی ہوئیا ،
وہ مجھے اندر بلڈنگ میں لے گیا اندر داخل ہوا تو اندر آلارم بج رہے تھے سٹاف صفحے اٹھائے ادھر اُدھر دوڑیں لگا رہے تھا ” مجھے اسلم نے ایک آفس بوائے والا کورٹ پہنا دیا تھا تاکہ مجھے کوئی نوٹس نہ کرے اور مجھے سمجھابھی دیا تھا کہ اس اس طرح کرنا ہے” اندر جنگ جیسا ماحول بنا ہوا تھا میں نے اسلم سے پوچھا یار یہ ہوا کیا ہے پھر اسلم نے مجھے بتایا کہ ابھی ابھی پٹرول 30 پیسے مہنگا ہونے کی خبر آئی ہے بس سارے اسی کی خبر بنا رہے ہیں کہ عوام پر پیڑول بم گر گیا پھر مجھے سمجھ آئی کہ وہ بم پیڑول بم تھا ،
خبر کا ڈرافٹ بن چکا تھا ایک لڑکی خبریں پڑھنے والوں پر پاوڈر لگا کر ان کو ریڈی کر رہے تھی پھر اچانک ریڈی کی آواز آئی کیمرے آن ہوئے لائیٹنگ آن ہوئی جیسے دن چڑھ گیا ہو۔
ایک آدمی جو شاید پروڈیوسر ہوگا جس کے ہاتھ میں گھوڑوں کو مارنے والا چھانٹا تھا اس نے رکھ کے دونوں خبریں پڑھنے والوں کی ٹوئی میں دو دو لگائےیہ دیکھ کر میرے تو جسم میں درد کی لہر سی اٹھ گئی ہو جیسے
اچانک درد سے چیختی آواز نکلی ناظرین ابھی ابھی ایک خبر ملی ہے کہ پیڑول 30 پیسے مہنگا کر دیا گیا
جی ناظرین عوام پر پیٹرول بم گرا دیا گیا ۔ مہنگائی میں زبردست اضافہ ۔۔۔۔ فلاں فلاں
اتنے میں چھانٹے والےپروڈیوسر نے اسلم کو آواز دی اور کہا جلدی سے باہر سے 3 ، 4 ایکسپرٹس پکڑ کے لاو جلدی جلدی جلدی کروووووو۔
اسلم نے مجھے ہاتھ سے پکڑا اور باہر لے آیا اور کہا چل آجا ایکسپرٹ لے کر آئیں میں حیران یہ ایکسپرٹ ہیں یا مرغیاں خیر میں اسلم کے ساتھ گیٹ سے باہر نکل آیا ،
باہر کافی سارے لوگ گیٹ کے پاس دیواروں کے ساتھ لگے سگریٹ سلگائے گپیں ہانک رہے تھے اور کچھ سڑک پار بھی بیٹھے ہوئے تھے اچانک اسلم کو دیکھ کر الرٹ ہو گئے اسلم نے آواز لگائی 3 ایکسپرٹس چائیے جو مہنگائی اور پیڑول کی قیمتوں پر بات کر سکیں سارے اسلم کے اردگرد جمع ہو گئے جی میں ہوں ایکسپرٹ مجھے لے جاو مجھے لے جاو پھر اسلم نے چھانٹی کر کے دو (ر) اور کوئی ایک عام آدمی کو اندر لے گیا اور اچھے کپڑے پہنا کر اسٹوڈیو روم میں بٹھا دیا ،
اتنے میں ایک طرف سے شیخ رشید کی آمد ہوئی اور آتے ہی پوچھنا شروع ہو گیا
ہا ں بھئی کی پکیا اج ؟ جلدی دسو بہت بھوک لگی ہے اور ہاں میرے کپڑے استری کرو جلدی، انٹرویو دینا ہے مجھے ۔ پھر ایک ملازم نے آ کر کہا کہ شیخ صاحب وہ مہمان آ گئے ہیں جن کو رات کا ٹائم دیا تھا وہ تھوڑا لیٹ تھے اس لیے آپکو کہا تھا اب آپ انتظار کریں شاید کسی اور شو میں کوئی مہمان لیٹ ہو جائے اور آپ کا نمبر لگ جائے ،،،
پھر اسلم مجھے اپنے ساتھ کچن میں لے گیا اور کہا چل میرے ساتھ سب کو چائے پلا اور سٹاف روم بھی دیکھ لینا کیسے کام ہوتا ہے،
دو چائے کی ٹرے میں نے بھی پکڑی اور اسلم کے پیچھے پیچھے چلنا شروع ہو گیا ، ہم اس کمرے میں داخل ہو گئے جہاں ویب سائیٹ چلائی جا رہی تھی اورخبریں فیس بک ٹویٹر اور دیگر سوشل ویب سائیٹس پر ڈالی جا رہی تھیں،
اچانک ایک طرف سے آواز آئی ، یاہووووووووو مل گئی لائن مل گئی لائن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکھو لکھو کہ ” ظالموں نے ماہرہ خان کے اہم حصے کاٹ دیے”
لڑکا کہتا لیکن وہ حصے تو ٹھیک ہیں سر جی ۔۔۔
خیر آگے بڑھے تو ایک لڑکا خبر بنا رہا تھا ” راحیل شریف کا ایسا کام کہ قوم کے خوشی سے آنسو نکل آئے” نیچے خبر تھی کہ وہ توسیع نہیں لیں گے۔
تھوڑا آگے گیا تو ایک لڑکا سیاستدانوں کی تصاویر کو ڈری سہمی ہوئی بنا کر آرمی چیف کے ساتھ لگا رہا تھا جس پر لکھا ہوا تھا نواز شریف پھنس گئے مارشل لاء کی تیاریاں مکمل جاننے کے لیے لنک پر کلک کریں
یہ سب دیکھ کر میرا تو سر ہی گھوم گیا شکر میری ٹرے کے سارے کپ ختم ہو گئے میں واپس کچن آ گیا تھا۔
اب اسلم مجھے ایک اہم روم میں ساتھ لے گیا جہاں ہمیں کافی پیش کرنا تھا روم کے باہر انگلش میں کوئی نوٹس بھی لگا ہوا تھا شاید شور مت کریں یا پھر بغیر اجازت اندر آنا منع ہے ایسا ہی کچھ تھا برحال اسلم نے پاوں سے دروازے کو کھڑکایا یس کی آواز پر ہم اندر چلے گئے
اندر جاتے ہی میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا : ن لیگ پی پی اور تحریک انصاف کے رہنما آپس میں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے جیسے یہ لنگوٹیئے ہوں ،
اتنے میں ایک معروف اینکر بھی چھوٹے سے روم میں سے اندر آ گیا جس کے پچھے ایک میک اپ آرٹسٹ میک اپ کے ہتھیار اٹھائے چل رہا تھا آ کر مہمانوں کو کہتا لیں سر آپ کے جوابات تیار ہو گئے ہیں اورپلیز ہنسی کنڑول کر کے شو ریکارڈ کروائیے گا زیادہ ٹیک میں پھر مزا نہیں رہتا شو میں ،
وہاں سے ہم نکلے تو ساتھ والے کمرے میں داخل ہوئے وہاں دو بابے ایک لڑکی کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے اور ہمارے اندر داخل ہوتے ہی سنجیدہ ہو گئے اور دانشواری والی باتیں شروع کر دی
اسلم نے مجھے بتایا یہ دونوں مایہ ناز صحافی ہیں اور یہ لڑکی بس ایویں ہی شو میں ڈالی ہوئی ہے کہ ان کا بھی دل لگا رہا اور دیکھنے والوں کا بھی ۔ پھر مجھے کہتا ایک دفعہ تو یوں ہوا ہمارے ایک صحافی کو لڑکی پسند نہیں آئی تھی وہ ایک سٹیج ڈرامے والی اپنی مرضی کی لڑکی لے آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم تقریباََ سب کو چائے پلا کر فارغ ہو گئے تھے تو اسلم اور میں باہر گھاس پر جا کر بیٹھ گئے اتنے میں بڑا گیٹ کھلا تین بڑی بڑی گاڑیاں اندر آئیں پولیس اور ذاتی سکیورٹی بھی ساتھ ایک بڑی مونچھوں والا بندا گاڑی سے اترا سب اسے سلیوٹ مار رہے تھے
میں نے اسلم سے پوچھا یہ کون وزیر ہے؟ اسلم نے کہا اس میڈیا ہاوس کا مالک ہے
میں نے پھر پوچھا واہ یار کافی پڑھا لکھا ہو گا جو اتنا بڑا کام چلا رہا ۔۔
اسلم نے میری طرف دیکھا اور کہتا او نئی اوئےےے
ان کی زمینیں مین رو ڈ کے قریب آ گئی تھیں بنجر زمین اچھے ریٹ پر بک گئی تو اس نے گھی شوگر وغیرہ کی ملیں لگا لی تھیں پھر وہاں سے پیسا کما کر اس نے سکول کالجز کی فیکڑیاں کھول لیں پھر اس نے سوچا ان کی مشہوری کے لیے اپنا ہی چینل کھول لیتے ہیں کیا کسی کو پیسے دینے اس طرح انکا چینل بن گیا ویسے بندا بہت اچھا ہے نیک ہے ہر سال حج کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں
مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں. کچھ روز پۂلے ماں جی کچھ لکهنے کی کوشش کر رہی تهیں. میں نے ایسے ہی بول دیا “ادهر دیں قلم کاغذ میں لکھ دوں آپ سے کۂاں لکھ ہو گا” وه فوراً بولیں “اگر تمۂیں یاد ہو تو میں نے تمۂیں لکهنا سکهایا تها” میں بهی کۂۂ دیا کہ “اسی لیے میری لکهائی اتنی گندی ہے” ماں جی شاید برا محسوس کر گئیں . ایک دم خاموش ہو گئیں چند لمحے مجهے گهوری گئیں پهر ایک دم گلے لگا کہ کهلکهلا کے ہنس پڑی. اس پل میری بدتمیزی کو یکسر فراموش کرتے ہوے شاید انۂیں میری حاضر جوابی پہ پیار آگیا تها لیکن مجهے بے انتۂا شرمندگی محسوس ہوئی اپنی اس حرکت پہ. مائیں کتنے آرام سے اپنے دکھ بهول کہ اولاد کی خوشی میں خوش ره لیتی ہیں. ہماری مائیں ساده مزاج ، جدید تۂذیب سے نا آشنا گهر کی چار دیواری میں رہنے والی اور بس دنیا کو اس حد تک جاننے والی جتنا اس چار دیواری میں جان سکتی ہیں. ہمیں اب اپنی سبکی محسوس ہوتی جب دیکهتے کہ ہماری مائیں “اپ ٹو ڈیٹ” نۂیں. ہمیں سمجھ نۂیں آتا ان سے کس موضوع پہ بات کریں کہ انکی معلومات بۂت محدود ہے. ان کی یہ سادگی ، بهولپن ہمیں ناگوار لگتا ہے. کسی جاننے والی کی والده کو بیٹی کی یونیورسٹی دیکهنے کا اور اسکی سۂیلیوں سے ملنے کا شوق تها. کئ بار اسرار کیا پر بیٹی ٹالتی گئ ایک دن زبردستی ساتھ جانا چاہا تو بیٹی نے صاف کۂۂ دی” اماں اپ کے دیۂاتی پن سے شرمندگی محسوس ہوتی ہے کیسے آپکا تعارف اپنی سۂیلیوں سے کرواونگی”. اس بات کے بعد اس بوڑهی عورت کے چۂرے کی رنجیدگی کافی عرصه مجهے پریشان کرتی رہی. ہم یه بات بهول جاتے ہیں کہ ان ساده مزاج ، ماؤں نے ہی پال پوس کہ ہمیں اس مقام تک پۂنچایا ہوتا ہے جۂاں انکا تعارف کرواتے ہوے ہمیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے. اپنی “ٹور” بنانے کہ چکر میں ہم انکی دل آزاری کرتے ہوے ایک بار بهی نۂیں سوچتے کہ اگر ہماری بنیاد وه نا اٹهاتیں تو ہم اس مقام تک کبهی نا پۂنچ سکتے. ہمیں غلط سهی کی تمیز نا سکهاتی تو ہم کبهی ترقی نا کر سکتے. جیسے ہماری پرورش انکی ذمہ داری ہے ویسے ہی انکو جدید دنیا کے تقاضوں سے روشناس کروانا ہماری ذمه داری ہے. ان کی معلومات بس اتنی سی ہی ہے جتنی گهر کی حدود میں رہتے ہوے انۂیں میسر ہو جاے. یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ انکو دنیا کہ تقاضوں سے روشناس کروایں. جو کچھ خود سیکهتے انکو بهی سکهایں. جیسے جیسے خود آگے بڑهتے جاتے انکو بهی ساتھ چلایں. تا کہ وه بهی اپنی اولاد سے گفتگو کرنے لیے موضوعات کی کمی محسوس نا کریں. انکی سادگی ، بهولپن کو شرمندگی کا باعث نا سمجهیں .. ان کہ ان پڑھ ہونے کو اپنے لیے بے عزتی کی بات نا سمجهیں. بلکه اپنی ماوں کو اپنا فخر اور غرور بنایں اگر مایں اولاد کو اسکی ہر خامیوں کوتاهیوں سمیت شدید محبت دے سکتی ہیں تو اولاد بهی انکو انکی کمیوں سمیت قبول کر کہ انکا مان بڑهائیں. مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں. ہماری کوتاهیوں ، بدتمیزیوں اور خامیوں سمیت ہم سے بے لوث محبت کرنے والیں. مائیں ایسی ہی ہوتی هیں.
Social Media and its use | Mubashar Akram
Twitter Handle of Writer @mkw72