Quantcast
Channel: Blogs
Viewing all 58 articles
Browse latest View live

Zero Point

$
0
0

زیرو پوائنٹ

جاوید چوہدری

آپ شہر کے مصروف ترین شاپنگ ایریا میں ہیں – آپ کے اہل خانہ اتر کر ایک  معروف  شاپنگ مال  میں جا چکے ہیں اور آپ اپنی قیمتی گاڑی کو چوراچکوں کی پہنچ سے محفوظ مقام پر پارک کرنا چاہ رہے ہیں – اچانک آپ کے گلے میں سوئیاں چبھنے لگتی ہیں، آپ کا حلق خشک ہوجاتا ہے، آپ کے کان سائیِں سائیں کرنے لگتے ہیں، آنکھوں کے آگے اندھیرا آ جاتا ہے – اسوقت آپ کواپنی ساری دولت ہیچ دکھائی دینے لگتی ہے – آپ عجلت میں اپنی گاڑی سے نکلتے ہیں ریموٹ سےگاڑی لاک کرتے ہیں اوراپنے اردگرد دیکھتے ہیں آپکو ایک سٹور نظر آتا ہے – آپ تیزی سےسٹورمیں داخل ہوتے ہیں – سامنےلگے ریک میں سے بین الاقوامی برینڈ کے پریمیئم ڈرنکںگ واٹر کی بوتل اٹھاتے ہیں کاونٹر پر آ کرجیب میں سے رقم نکال کر پھینکتے ہیں اوربقیہ رقم کی واپسی کا تقاضہ کیے بغیر خوشنما بوتل کی سیل کھول کرغٹاغٹ پانی پیتے پیتے سٹور سے باہر نکل آتے ہیں – پانی پیتے ہی آپکے حواس بہتر ہوجا تے ہیں اورآپ آرام سے گاڑی میں بیٹھ کراسے پارک کرکے پرسکون طریقے سے اپنے خاندان کے ساتھ شاپنگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں
بظاہر یہ ایک معمولی سا روزمرہ کا واقعہ  ہے مگر کیا یہ سب کچھ اتنا ہی سادہ  ہے؟
جی نہیں
کیا آپکویقین ہے کہ جو آپ نے پیا ہے وہ پانی ہی ہے؟
جی نہیں
جو محلول آپ  نے پیا ہے وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن کا ایک شفاف مرکب ہے جسے خوشنما بوتل میں آپ کو پانی بتا کر بیچا جارہا  ہے اور یہ سب کچھ کرنےوالی بین الاقوامی کمپنی دنیا کے سینکڑوں ممالک میں اربوں ڈالرکا بزنس کررہی ہے اوراس کاروبارکے ساتھ  ہزاروں لاکھوں لوگوں کاروزگاروابستہ ہے اور یہ ایک کاروبار نہیں ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں آپکو پتہ ہی ہوگا کہ ہائیڈروجن اور آکسیجن کا معمولی سا مختلف مرکب ہائیڈروجن پرآکسائیڈ کے نام  سے آپکوکیمسٹ کی دکان سے مل جائیگا اوراس سے خواتین اپنے سیاہ بالوں کوسنہری بناتی ہیں – آپ خود سوچیں کہ جو کیمیکل آپ کے بالوں کی قدرتی رنگت تبدیل کرسکتے ہیں وہ آپکی آنتوں اور معدے کے ساتھ  کیا کچھ نہیں کرتے ہونگے؟

آپ  نمک کو لے لیجیئے آپ سوچ رہے ہونگے کہ بظاہر معمولی اور سادہ نظر آنے والی اس چیز میں جس کے رنگ، ذائقے اور خواص سے آپ برسہا برس سے واقف ہیں کیا دھوکا ہوسکتا ہے؟

یہاں بھی آپ غلط فہمی میں مبتلا ہیں یہ نمک جو آپ کھارہے ہیں سوڈیم اور کلورائیڈ  نامی دو کیمیکل کا مرکب ہے جس کو آپ نمک سمجھ کرنسل در نسل کھاتے چلے آرہے ہیں

اب آپ کو اگر پتہ چلے کہ کلورین اور سوڈیم  نامی یہ کیمیکل کن کن خطرناک چیزوں میں استعمال ہوتے ہیں تو آپ شائد کبھی بھی نمک استعمال نہ کرسکیں
چینی جیسی خوشذائقہ چیز کے نام پر آپکو ہائیڈروجن، آکسیجن اور کاربن سے بنا مرکب کھلایا جارہا  ہے

بین الاقوامی اور مقامی سرمایہ داروں اورفنکاروں کے فراڈ کا سلسلہ یہیں نہیں رکتا زندگی کے ہر شعبے میں یہی ہورہا ہے- بین الاقوامی شہرت یافتہ امریکی کمپنی ایپل کا آٰٰئی فون جب آپ خریدتے ہیں تو اسے غورسے دیکھیں وہ چائنہ کا بنا ہوگا – یہ تو سامنے کی بات ہے مگر آپ میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ آپکو جو آئی فون دیا جاتا ہے اسکی ایل سی ڈی اورپروسیسرسام سنگ کا بنا ہوا ہے
یہی کہانی آپکے بیش قیمت میک بک پرو کی ہے

آپ جوٹومی کی شرٹ خریدتے ہیں وہ بنگلہ دیش کی بنی ہوتی ہے، آپ جو نائیکی کےسنیکرز پہنتے ہیں وہ ویتنام کے ہوسکتے ہیں

آپ جو بیف کباب کھاتے ہیں وہ گدھے کے گوشت کے ہوسکتے ہیں ، آپ جو مشہور بین الاقوامی فاسٹ فوڈ چین کا برگرکھاتے ہیں اس میں چائنہ سے درآمدی زائد المعیاد چکن ہوسکتا ہے آپ کا گھی گریس، مرچیں اینٹوں کا برادہ، چائے کی پتی خون میں رنگے چنے کے چھلکے، ادرک میں تیزاب اور آڑو اور تربوز میں کیمیائی سرخ رنگ ہوسکتا ہے، آپ جو نوڈلز کھاتے ہیں وہ سیلیکون کی ہوسکتی ہیں آپ جو مارجرین اپنے بچوں کوکھلاتے ہیں ایک مالیکیول کی تبدیلی سے وہ پلاسٹک ہوسکتا ہے ، آپ جو کرکرےکھاتے ہیں کبھی اسکوجلا کر دیکھیں وہ پلاسٹک ہوتا ہے ، آپ جو کولا پیتے ہیں اس میں مینٹوس ڈالکر دیکھیں کیا ہوتا ہے مینٹوس پھٹ جائیگا – آپ سوچیں کہ آپ کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے؟
کیا یہ ساراکچھ پڑھنے کے بعد آپ پرسکون رہ سکتے ہیں؟
(نہیں نا؟ (اور یہی میرا مقصد ہے
ان سب چیزوں سے آپ کیسے بچ سکتے ہیں؟

اسکا صرف ایک ہی طریقہ ہے ہے آپ اپنے گھر کے عقبی باغیچے میں کریلے اگائیں اور صبح شام کریلے کھائیں، کریلے کا جوس پئیں – اگر آپ میں سے چند ہزار لوگ بھی یہ کام کرتے ہیں تو میرا مقصد پورا ہوجاتا ہے – آپ چند دنوں میں ہی میرے دکھ کو سمجھ پائیں گے کہ تمام تر وسائل اورذرائع کے ہوتے ہوئےبھی اگر آپ شوگر کے مریض ہوں تو زندگی کتنی بے کیف اور بد مزہ ہوسکتی ہے اور اور آُپ کس طرح انواع و اقسام کی نعمتوں کے پہنچ میں ہوتے ہوئے بھی کفران نعمت کے مرتکب ہوتے ہیں

(اس کالم کےلئیے ہم وکی پیڈیا، فیس بک اور یو ٹیوب کے شکرگذار ہیں)


Suraab Naama – 2

$
0
0

سراب نامہ – حصہ دوم

گزشتہ سے پیوستہ جیسا عرض کیا گیا تھا کہ منصوبہ سازوں کو شکست ہضم نہیں ہو رہی تھی. لہٰذا انتقام کی آگ کو بجھانے کے لئے از سر نو منصوبہ بندی کی گئی. جمہوریت کو دفن کرنے کے لیے شہر جمہوریت یعنی لندن کا انتخاب کیا گیا. امیر کارواں کو باور کرا دیا گیا تھا کہ آپ کے ساتھ بد ترین نا انصافی ہوئی ہے اور موجودہ نظام کے ساتھ انصاف کا حصول ناممکن ہے. چونکہ موصوف کا فہم کے ساتھ تعلق عمومی نوعیت کا ہی ہے. وہ خوشامدیوں کی جس دلدل میں اتر گئے تھے وہاں سے واپسی ناممکن ہی ہوتی ہے. اس پر عمل انگیزی کا کام حکومتی تساہل اور تکبر نے ادا کیا. کئی وزیر با تدبیر باقاعدہ زبان کے ہیضہ کا شکار رہے. غرض کوزہ گروں کے لیے مٹی مکمل تیار تھی ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈالنے کے لیے کوشاں تھا.

یوں پاکستان کا سیاسی ماحول یکایک گرم ہونا شروع ہو گیا قادری صاحب تاریخ پر تاریخ دینے لگے الزامات شدت اختیار کرتے جا رہے تھے اسکرپٹ میں زیادہ تر پرانے ورژن کے الزامات یعنی کرپشن وغیرہ زیادہ شدت سے بیان کیے گئے تھے لیکن یہ صرف قادری صاحب تک ہی محدود تھے. تبدیلی والوں کے لیے کچھ نیا لکھنے کی ضرورت تھی چنانچہ اس ضرورت کا بھی خیال رکھا گیا. نیا پاکستان بنانے کا واویلا شروع کر دیا گیا تھا معلوم نہیں کیوں کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ خیال راسخ ہو چکا تھا کہ نیا پاکستان بنانے کے لیے پرانے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانا ضروری ہے. تحریک انصاف جو کے طالبان سے مذاکرات شروع کرنے سے قبل وزیراعظم کی کوششوں کی تعریف کر چکی تھی جس سے امید پیدا ہو گئی تھی کہ پاکستان سیاسی استحکام کا سفر طے کر لے گا لیکن تازہ لوری نے سکون کے بجائے نئے ہیجان کو جنم دیا  میڈیا کے لیے بھی یہ نمک حلالی کا زمانہ تھا. ایک بڑے نجی ٹی وی چینل پر حالات مہربان نہ تھے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر چینلز نے مائیک کی جگہ بڑے بڑے بوٹ سامنے رکھ دیے  تھے. صحافت مکمل طور پر برہنہ حالت میں کھڑی تھی. اصول ضابطے بازار صحافت میں تقریباً ناپید ہو چکے. گو نواز گو کے نعرے کو تقریباً نئے پاکستان کے قومی ترانے کا درجہ حاصل ہو چکا تھا کئی اینکر حضرات کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ منتخب وزیراعظم کو با قاعدہ گالیاں دیں سکیں. قادری صاحب کی آمد سے قبل ماڈل ٹاؤن واقعہ پیش آ گیا تو حکومت تقریباً متزلزل ہو کر رہ گئی معلوم نہیں کہ اس کے منصوبہ ساز کون تھے لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ کسی سیاست دان کی فراست کا نتیجہ معلوم نہیں ہوتا. نیچے کی سطح پر اہلکاروں نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری نبھائی یا پھر  کسی نے سازش کی اس پر شاید مستقبل کوئی سراغ دے ابھی تک بدستور ابہام موجود ہیں. خیر جو بھی تھا دھرنے کا باقاعدہ اعلان ہو گیا. جس طرح جمہوریت کو سبق سکھانے کے لئے لندن جیسے شہر کی توہین کی گئی ویسے ہی 14 اگست کے دن کا انتخاب آزادی پاکستان کی توہین کے لیے منتخب کیا گیا.

اب ہم اس دھرنے کے پس منظر و مقاصد کا جائزہ لینے کی گر کوشش کریں تو تین اہم نقاط نظر آتے ہیں اول سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ دوم تحریک انصاف کے کے تحفظات کو حکومت کی جانب سے مسلسل نظر انداز کر دینا سوئم بین الاقوامی سیاسی منظر نامے پر آنے والی ممکنہ تبدیلیوں میں پاکستان کے کردار کو محدود کرنا. ان تینوں عوامل کا بظاہر ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہونے کا کوئی منطقی جواز نہیں بنتا لیکن اگر ہدف ایک ہی ہو تو معمولی تضادات یکجہتی میں زیادہ دیر رکاوٹ نہیں رہتے. مسلہ جو درد سر بنا ہوا تھا وہ حکومت کی عددی برتری تھی کہ جس کی موجودگی میں قانونی اخلاقی یا آئینی تبدیلی کے لئے کوئی سبیل نکلتی دکھائی نہیں دیتی تھی. اس لیے اس جدوجہد میں پھر جو جو ہوا اس کو آئینی اخلاقی یا جمہوری کہنے والوں کو اپنے نظریات کی تجدید کر لینی چاہیے. اب ایسے میں انتشار پھیلانے کے سوا چارہ نہیں تھا جس کا باقاعدہ اہتمام تحریک وحدت المسلمین اور سنی تحریک جیسی امن کی فاختاؤں کی خدمات حاصل کرنے سے ظاہر ہو رہا تھا . حکومتی تحمل جواب دے جاتا تو لشکر جھنگوی اور دیگر ہمدردانہ خدمات سرانجام دینے کے لیے بس کسی اشارے کے منتظر تھے. اب ہم تینوں نقاط کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں.

نواز شریف نے اپنی سیاسی سفر کا آغاز کہاں سے کیا اس کے لیے صفائیاں دینا مناسب نہیں ابتدا میں خیال یہی تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو ایک مستقل پارٹنر جو درکار تھا میسر آ گیا ہے میاں صاحب نے بھی شہید کے مشن کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا یوں ہر کوئی شاداں تھا کہ بار بار اسکرپٹ رائٹنگ کے تردد سے جان چھوٹی. معاشی آسودگی ایسا جادو ہے جو کم عقل کو خرد اور کمزور کو طاقت سے نوازتا ہے. چنانچہ یہاں بھی یہی ہوا اسٹیبلشمنٹ سے جو غلطی سرذد ہوئی وہ بھی یہی تھی کہ انہوں نے پاٹنر کوئی بے روزگار سیاست دان نہیں بنایا تھا بلکہ ایک اچھا بھلا متمول گھرانے کا فرد تھا. جس نے١٩٩٣ میں ہی ایک تقریر کر کے اعلان بغاوت کر لیا تھا. یہ پس منظر تھا جو نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کی نشاندہی کر تا ہے. لیکن اب کی مرتبہ جو دھماکہ حکومت کی جانب سے کیا گیا وہ متوقع ضرور تھا لیکن اتنا جلدی اس کا تصور نہیں تھا. عمومی خیال یہی تھا کہ آرٹیکل سکس کو محض انتخابی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا. لیکن انتقام تھا یا جمہوریت کی بقا فیصلہ یہی ہوا کہ جنرل صاحب حاضر ہوں. جنرل ریٹائرڈ ہو کہ حاضر سروس ادارے نے اس کے تحفظ کی قسم کھائی ہوئی ہے. اس کے علاوہ  خواجہ آصف کا وزیر دفاع تعینات ہونا، جنرل ظہیر الاسلام، جنرل پاشا کا ذکر خیر جیسے اندرونی مسائل بھی سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی کا باعث تھے. خارجہ پالیسی میں میاں صاحب ہمیشہ سے بھارت افغانستان کو اہمیت دیتے آئے ہیں یہ بھی ایک اہم فیکٹر سمجھا جا سکتا ہے. یہ وہ عوامل تھے جو مخالفین کو آرمی کی ہمدردی حاصل کرنے میں مدد دے سکتے تھے. آئی ایس پی آر کے اس بیان نے کہ طاقت کا استعمال نہ کیا جائے مجاہدوں کے جذبات کو قائم رکھنے میں معاون بنا. چنانچہ یہ تماشا پوری عسکری اعزاز کے ساتھ جاری رہا.

تحریک انصاف کے مطالبات پر حکومتی ردعمل منطق سے خالی تھا. یہ مسئلہ ابتدائی طور پر ہی سنجیدہ لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا تو شاید تحریک انصاف کے لیے اخلاقی جواز کم سے کم ہوتا. تحریک انصاف اگر اس دھرنے کو احتجاج تک محدود رکھتی تو اس کی سیاسی حیثیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا اور پاکستان میں جمہوریت مزید مضبوط ہوتی. لیکن بھلا ہو عمران خان کا کہ جنہوں نے چوہدری پرویز الٰہی اور شیخ رشید کو اپنا پیشوا مانا جو سیاسی اختلاف سے زیادہ انتقام کی آگ میں جل رہے تھے. یوں ایک جائز کام کو ناجائز انداز میں انجام دینے کی سہی شروع ہوئی. حکومت جو ماڈل ٹاؤن واقعہ پر  پچھلے قدموں پر تھی اس کے لیے تحریک انصاف کا یہ اقدام متوقع نہیں تھا. وزیراعظم نے بروقت مسئلے کی سنجیدگی کو نوٹ کرتے ہوئے دھرنے سے قبل تمام معروف مطالبات منظور کر کے اپنی کوتاہیوں کے ازالہ کی معقول کوشش کی. لیکن بدقسمتی سے عمران خان کی تحریک مکمل طور پر غیر سیاسی ہاتھوں میں چلی گئی تھی اکا دکا سیاسی قائدین اس پر اعتراضات اٹھاتے رہے ہیں لیکن ان کی آواز کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا. اس میں سب سے توانا آواز مرد جمہوریت جناب جاوید ہاشمی کی تھی. دھرنا جب اسلام آباد پہنچ گیا تو کسی کو توقع نہیں تھی کہ تحریک انصاف اس قدر حماقتوں کا مظاہرہ کرے گی. قادری صاحب جو اسلام آباد پہنچنے سے پہلے غیر اہم محسوس ہوتے تھے دیکھتے ہی دیکھتے امامت کے فرائض انجام دینے لگے. عمران خان ایک سیٹ والے قائد کی پیروی میں ریاست کا نشان سمجھی جانے والی عمارتوں پر حملہ آور ہو گئے اس دن یوں لگ رہا تھا کہ آج مارشل لاء پھر سے تقدیر مج لکھ دیا جائے گا کہ جاوید ہاشمی کے انکشافات نے صورتحال کو تبدیل کر دیا. اس وقت زرداری صاحب کے مشورے نے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے اور پھر تاریخ لکھے گی کہ پاکستان میں پارلیمنٹ نے کیا خدمت سرانجام دی.

آخر میں بین الاقوامی سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیتے ہیں. مشرق وسطٰی کی بدلتی ہوئی صورتحال اور ایران امریکہ بڑھتے ہوئے تعلقات نے پاکستان کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے. آج ہی کے دن طے پانے والا جوہری معاہدہ مرکزی نقطہ تھا. امریکہ سعودی عرب دیرینہ حلیف رہے ہیں یہ معاہدہ امریکہ کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا اور اس پر سعودی عرب کے ردعمل کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا تھا. سعودی عرب دفاعی معاملات میں پاکستان اور امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اس لیے سعودی عرب کو دباؤ میں رکھنے کے لیے پاکستان میں نسبتاً کمزور یا پھر سعودی عرب کے حوالے سے غیر جانبدار حکومت کا قیام ضروری تھا جو کہ گزشتہ انتخابات میں حاصل نہیں ہو سکا. موجودہ حکومت کے سعودی عرب کے ساتھ ایک خاص تعلقات ہیں. لہٰذا اس حکومت کو محدود رکھنا امریکہ کے بھی مفاد میں تھا جس کا ایک مظاہرہ ہم نے یمن فوج بھیجنے سے متعلق حکومت کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے کیا. دوسرا نواز شریف ہمیشہ سے چائنا اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ تجارتی تعلقات کے خواہاں رہے ہیں. اگر نواز شریف کے پہلے دور کو جبری رخصت نہ کیا جاتا تو پاکستان اس وقت بین البراعظمی انفراسٹرکچر کا حامل ضرور ہوتا. پاک چائنا کوریڈور پر پیش رفت ایک طرف بھارت کے لیے ناقابل قبول ہے تو دوسری طرف روس کی اس میں شمولیت بین الاقوامی تجارتی توازن کی ہیت بدلنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے.

لندن پلان والوں کی پشیمانی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہے یہ نہ صرف نوازشریف کو حکومت بنانے سے روک سکے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ پاکستان ان کی گرفت سے آزاد ہوتا جا رہا ہے. پاکستان اور سعودی یکجہتی امریکہ سے ہوتی ہوئی ماسکو جا پہنچی ہے. پاکستان اپنے دیرینہ دوست چائنا کے ساتھ اسٹریٹیجک پاٹنر بن گیا ہے. عمران خان بری طرح استعمال ہو کر دھتکار دیے گئے ہیں. جو خواب دکھائے گئے تھے وہ ادھورے چھوڑ دیے گئے. دھرنوں کی اس مشق میں صرف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہی وہ واحد کھلاڑی رہی ہے جو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے. نواز شریف کو بھارت افغانستان پالیسی پر سرینڈر کرنا پڑا. آرمی چیف کو بڑے بھائی کا کردار مل گیا. تحریک انصاف اپنے اصل سے کافی دور چلی گئی ہے اب مسخ شدہ کلیاں چن کر جشن بہاراں کی پھر سے تیاری ہے. ممکن ہے یہ سب کوئی انتخابی کامیابی دلا دے لیکن تحریک کا جمہوری چہرہ مسخ ہو چکا ہے. جمہوریت پسند لوگ نشان عبرت بنے ہوئے ہیں. دوسری طرف  مسلم لیگ ن کی حکومت پہلے سے کہیں مضبوط دکھائی دے رہی ہےلیکن ہمیشہ کی طرح تنظیم پر توجہ نہیں دی جا رہی. یہ المیہ اب کا تو نہیں ہے قائد اعظم بھی اعتراف کر کے گئے تھے میری جیب میں کھوٹے سکے باقی رہ گئے ہیں. اب بھی وقت ہے شہر شہر گلی گلی محنت کی جائے کہ لوگ کہہ اٹھیں مسلم لیگ کا ہر جوان چلتا پھرتا پاکستان

سراب نامہ – حصہ اؤل

About The Author

Arshad Mehmood  is a political activist live in UAE  originally belonging to Azad Jammu & Kahmir,  Pakistan  Can be found on Twitter @Arshad123ajk

Modern Jolaha

$
0
0

ماڈرن جولاہا

شیخ صاحب کے بچےیوں توسب ہی محنتی اور قابل تھے مگر کامران گھربھر کا لاڈلا “کامی” تھا ۔کامی عمرمیں سب سےچھوٹا ہونےکےباعث 7 بھائی،بہنوں کی توجہ کا مرکز رہا۔سب ہی کی خواہش تھی کہ کامران بہت پڑھےاورخوب ترقی کرے۔۔۔۔وہ ذہین تھالہذا پڑھائی میں کوئی خاص تنگ نہ کرتا۔سلیم بھائی کوبینک میں اچھی نوکری مل گئی اور یوں ایک بڑے کنبےمیں سکون کی لہر دوڑ گئی۔پھر یکےبعد دیگرے سب ہی بھائی برسرِروزگارہوتےگئے۔بہنوں کی شادیاں بھی ہوگئیں۔۔کامران مگرپڑھتا رہا۔اپنے قصبہ میں “فائبر ٹیکنالوجی” میں ایم۔ایس۔سی کرنے والے چندلوگوں میں شمار ہوتا تھا۔جہاں لوگ آج بھی یہی کہتےکہ “ماڈرن جولاہا” بنے گا کیا؟

اس دوران ایک عادت جو کامران کی طبیعت میں جڑ پکڑگئی وہ اپنی ذات کو دوسروں سے بالا سمجھنا اور اپنی ہی تعلیمی اسناد کوخاندان بھرمیں سب سے بہتر جاننا،تھی۔کچھ قصور گھروالوں کا بھی تھا ۔ اسے ہروقت باور کروایا جاتا کہ  کامران نے جو شاندار کارنامہ کر دکھایاہے وہ ان کے خاندان میں آج تک کسی نے نہیں کیا۔
سب بھابھیوں کا لاڈلا “کامی” اس لیے بھی آنکھ کا تارہ تھا کہ سب ہی بھائیوں کی سالیاں “آدھےگھروالیاں” شادی کے لائق تھیں۔۔ کامی صاحب نے بھی خوب رنگین طبیعت پائی تھی۔۔۔سب سے بےتکلفی تھی اور لطف یہ کہ سب ہی یہ سمجھتی تھیں کہ وہی کامران کے خوابوں کی شہزادی ہے۔

کامی کو اپنی قابلیت اور دور پار کے ایک رشتہ دار کی فراہم کردہ سہولت کے باعث شاندار نوکری مل گئی تھی،مگر یہاں اس نے اپنا اصول یاد رکھا کہ سب سے پہلےان لوگوں کو خود سے اور کام دھندے سے الگ کرو جس نے احسان کیا ہو یا جس رشتے دار کی ترقی کے امکانات آپ سے زیادہ ہوں۔

کامران بیرونِ ملک دوروں پرجانے لگا۔ تین کمروں کے ایک کوارٹر سےنکل کر زندگی اچانک ایسی آزاد مل گئی اور کچھ “کامی” کی رنگین مزاجی نے اثر دکھلایا۔شیخ صاحب جہاں دیدہ انسان تھے۔فوری رشتے کی تلاش شروع کی۔۔مگر “کامی” میاں نے بھابھیوں کو ایسی فہرست فراہم کی کہ سب حیران رہ گئے۔۔۔ایسا “معصوم” سر جھکائے رہنے والا “کامی” اتنا گُھنامیسنا نکلے گا،بھابھیوں کو امید نہ تھی۔کامران کی بڑھتی آوارہ مزاجی نے بالآخر شیخ صاحب کو کنارہ کشی کرنے پر مجبور کردیا۔ایسے میں بڑی بھابھی نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔پہلےپہل تو اپنی نٹ کھٹ میٹرک پاس بہن کیلیے بھرپور کوشش کی گئی مگر جلد اندازہ ہواکہ “کامی” نکاح کے دو بول کم از کم بھائی کی سالیوں میں سے کسی سے نہیں پڑھوائے گا۔بس وقت گزاری کیلیے دوستیاں گانٹھ رکھی ہیں۔
بڑی بھابھی نے ایک دو جگہ کامی کے رشتے کی بات چلائی مگر کامران کو اپنی قابلیت و تعلیم پر ایسا ناز تھا،کچھ خاندان میں اس کا رنگ سرخ سپید ہونے کے باعث باقی تو یوں بھی دبے سے معلوم ہوتے۔کوئی لڑکی ان کے معیار پرپوری نہ اترتی۔ایسےمیں ایک روز بھتیجےکے سکول میں منعقد ایک تقریب میں اس کی ملاقات “ایمان” سے ہوئی۔دبلی، پتلی نازک سی ایمان دھیمےلہجےمیں بات کرتی اس کے دل میں کھب گئی۔ایمان اپنے بھانجےکیساتھ اس تقریب می مدعو تھی۔کسی نے بتایا کہ ایک بین الاقوامی ادارے سے منسلک ہےاورآج کل ایم۔فل کررہی ہے۔کامران نے جھٹ بڑی بھابھی کو مہم پر لگادیا۔چوتھے روز وہ رشتہ ڈالنے ایمان کے ہاں موجود تھیں۔
ایمان اور کامران کی دوستی بڑھی توباتوں میں علم ہواکہ ایم-اے کررہی ہیں۔سال دوئم کے امتحان کی تیاری ہے نیز بہت سارے ڈپلومےاور کھانےپکانے،سلائی کڑھائی کے کورسز کررکھےہیں۔کامران کو اس وقت ایمان کے لہجےکی شیرینی کے سوا کچھ سجھائی نہ دیتاتھا۔
جیسے تیسے کرکے شادی ہوگئی۔مگراس رشتےمیں خاندان کےلوگ راضی نہ ہوسکے۔کامران کو پرواہ نہیں تھی جبکہ ایمان کاتو وہ حساب تھا کہ “اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔” آنکھوں سے یاد آیا کہ شادی کے 15 روز بعد اچانک ایمان کوآنکھوں کی الرجی ہوگئی۔ڈاکٹرز کودکھایا تو معاملہ کھلاکہ اسے پرانا مسئلہ ہے۔آنکھوں کے ٹئیرپلگز بلاک ہیں ۔مصنوعی پلگز ڈالنےکےسوا چارہ نہیں۔ یہ دوسرا دھچکا تھا،جی۔۔۔۔ پہلا تو اسی وقت محسوس ہواتھا جب دلہن سٹیج پر آتے پھسلی تھی اورداہنا پاؤں جو باہر نکلا تو وہاں برص کا نشان موجودتھا۔کامی کے کس بل نکلنے کا وقت آ چکا تھا کہ جب چند روز میں ہی تیسرا جھٹکا سنگھار میز کی دراز میں “انہیلر” دیکھ کر لگا۔
ایسےمیں ایک روز کامی نے ایمان سے اس کی تعلیم جاری رکھنے کی بات چھیڑی تو لجاتے ہوئے بولیں، “اب اپ کو سنبھالوں یا کتب کو؟” مگر کامران کو جانے کیا دھن سوار ہوئی امتحانات کیلیےداخلے شروع ہوئے تو فارم لا کر رکھ دیا۔چاروناچار ایمان کو بھرنا ہی پڑا۔ایک اور گھونسا دل پر لگا۔۔۔۔۔ایمان نے سادہ مضامین میں گریجویشن کررکھی تھی اور اب علمِ صحافت میں سالِ اول کا داخلہ بھیجنا تھا۔کامران کا سر چکرا رہا تھا۔کب سوچا تھا کہ اس کی “قابلیت” اور دنیا سے “بہترین” ہونے کا زعم یوں بکھرے گا۔
ایمان کی آنکھوں کا مسئلہ ایسا خراب ہوچلاتھا کہ ڈاکٹر نے ہر وقت کالے چشمےلگانےکی سختی سےتاکید کردی تھی۔دن میں تو کام چل جاتاتھا مگر کامران کو اس وقت بہت شرمندگی ہوتی جب کہیں ڈنر کیلیے جاتے ہوئے خاتون کالے چشمےلگاکر ہمراہ ہوجاتیں۔مزیدیہ کہ چولہےکے آگے جانےسے سختی سے منع کردیاگیا تھا۔لہذا وہ “کُکنگ کورسز” بھی دھرے ہی رہ گئے۔
اللہ نے خوشخبری دی تو اٹھلاتے ہوئے بولیں موسمِ گرما ہوگا۔۔بچے کے لان کےہلکے پھلکے “جبلے” وغیرہ سلوا لیتی ہوں۔کامران نے یاد کروایا کہ محترمہ نے تو بتایا تھا کہ “کوٹ پینٹ” تک سی لیتی ہوں۔ایمان نے فوراً بات بنائی کہ کامران جیسےاعلیٰ شخص کی بیوی ایسی حالت میں اب سلائی مشین پر بیٹھتی اچھی نہیں لگے گی ۔۔۔۔۔
اسی دوران ان امتحانات کا نتیجہ ایک روز ڈاکیا گیٹ میں پھینک گیا۔اورحسبِ توقع خاتون سب مضامین میں فیل تھیں۔فوراً برنر جلایا اور اس رزلٹ کارڈ کو نظرِ آتش کردیا۔۔۔۔
آج بہت مہینوں بعد بچےکوآیا کےسپرد کرکے کامران اپنی “بیماریوں کی پوٹلی” نما بیوی کیساتھ ڈنر کیلیے نکلا تھا۔کھانے کےبعد یہ دونوں اپنے پسندیدہ چاکلیٹ براؤنیز کا انتظار کررہےتھے جب ساتھ والی میز سے ایک صاحب ان کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔اور ایمان سےبےتکلفانہ انداز میں گویا ہوئے۔۔۔”ارے ایمان ! یہ تم ہو؟ پہچانا ہی نہیں تجھے۔۔۔” ایمان نے گھبرا کر دیکھا مگر وہ صاحب تو اپنی ہی دھن میں بلاتکان بولتے جارہے تھے۔۔۔۔۔۔۔”آنکھوں کا مسئلہ زیادہ ہوگیا کیا؟ اسی کی وجہ سے بی۔اے کے پرچوں سے بھاگی تھی نا۔۔۔۔ شکر کرو آغا صاحب نے “بالکل اصلی سند” بنوا دی تھی یار۔۔۔ یاد آیا جاب چل رہی ہے ؟ کسی کو شک تو نہیں ہوا تمہاری ڈگری پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ” ایمان کا دھواں دھواں ہوتا چہرہ کامران کے تمام شکوک پر مہر ثبت کرچکا تھا۔۔وہ شخص جو تمام دنیا کو اپنی انگلی پر نچانے کا دعویدار تھا آج اپنے ہی گھرمیں ایسا منہ کے بل گرا تھا کہ شاید بہت روز تک اُٹھنا مشکل تھا۔

About The Author:

Afshan Masab is a socio-political writer, can be found on Twitter @AfshanMasab

Tuzk e Niazi

$
0
0

تزکِ نیازی

ضروری نوٹ: اس تزک کا انگریزی ترجمہ بنام “آٹو بائیوگرافی آف دا کنگ خان” بہت جلد نیویارک ٹائمز میں شائع کیا جائے گا

:پیش لفظ
آجکل دوسروں کے کارنامے اپنے سر لینے کا رواج عام اور نوسرباز ڈس انفارمیشن پھیلا کر عوام کو اصل حقائق سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں جیسے انفراسٹرکچر کی بنیاد مہاتما نے جی ٹی روڈ کی تعمیر سے رکھی جس کا کریڈٹ آجکل میاں صاحب بڑی ڈھٹائی سے موٹروے کے نام پر لیتے ہیں۔ جعلسازی کی صنعت کی روک تھام ، برائے اصلاحِ ریکارڈ و اطلاعِ عوام، مہاتما نے بقلم خود حیاتِ عظیم سے پردہ ہٹایا ہے، لکھنے والے پینل میں شامل ہیں جناب قیامت مسعود، مباشرت لقا، حسن ایثار، خلیفہ جی اور شیکسپئرِ جنوبی پنجاب جناب کلاسرہ کروڑوی ساب۔ کارنامے چونکہ طویل ہیں اور کئی جلدوں پہ مشتمل ہیں اس لیئے عوام کی آسانی کی خاطر چیدہ چیدہ واقعات بمعہ شرح رقم کردی گئی تاکہ سند رہے اور کبھی کام نہ آسکے۔

:آغاز
“ماہِ الیکشن سنہ2013 میں عمرِ عزیز کے 62 ویں سال میرے ساتھ دھاندلی ہوئی ۔”
ضلع پیدائش میانوالی تھا مگر بڑے مقصداور مظلوم عوام کی خاطر سب چھوڑچھاڑ لاہور آگئے۔ پڑھائی سے خاص شغف نہیں تھا مگر عوامی لیڈر ان پڑھ ہو نہیں سکتا، کرکٹ اور چند ایک دیگر کھیلوں سے بچپن سے ہی خصوصی لگاؤ تھا، محلے میں میری کرکٹ اور دیگر صلاحیتیں دیکھتے لوگ کہتے تھے کہ یہ ایک دن کپتان بنے گا۔ خیر وقت کا پہیہ چلتا رہا میری کرکٹ، سیاست اور عاشقی مشعوقی محلے سے نکل کر شہر، ملک اور دنیا بھر تک پہنچی. میں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کی بجائے کاؤنٹی اپنا لی اور گلی کی بجائے انٹرنیشنل افیئرز۔میں بچپن سے ہی سٹار تھا، میری بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ہی مجھے آکسفورڈ یونیورسٹی والوں نے داخلہ دے دیا۔ یوں ایچیسن کالج سے جان چھوٹی، ایچیسن کا زندگی پہ عجیب اثر پڑا، کسے معلوم تھا کہ نقلی بالوں والا اصلی چوہدری کل کو وزیرِ داخلہ اور میرا سیاسی حریف بنے گا، ایسے ہی اور بہت سے کن ٹٹے تھے جنہیں کبھی میں نے لفٹایا نہیں آج میری برابری کرتے پھرتے ہیں۔ ایسے ایسے نابغے میرٹ کی چھاننی سے نکلے کے بے اختیا ر میرٹ کے قتل کا جی چاہنے لگا ہے۔

:دورِ آکسفورڈی و تحریکِ پاکستان

جیسا کے گزشتہ باب میں بیان ہوا کہ میری بے پناہ قائدانہ اور فائدانہ صلاحیتوں کے پیشِ نظرآکسفورڈ میں داخلہ مل گیا، یہ وہ زمانہ تھا جب قائدِ اعظم کانگریس سے بددل ہوکر لندن آئے ہوئے تھے، اقبال کی تحریک پر میں نے محمد علی جناح کوحکماً واپس انڈیا بھیجا۔ میں چاہتا تو اسی وقت ملکی باگ دوڑ سنبھال کر ڈائریکٹلی نیا پاکستان ہی بنا دیتا لیکن پھر لیڈر کا وژن سامنے تھا کہ عمران اگر اس نوجوان کو آج موقع نہ دیا تو کل کو بلونگڑے تمھیں کس سے زیادہ عظیم ثابت کریں گے۔ جناح بھی میرے معتقد رہے تحریکِ پاکستان دراصل تحریکِ انصاف سے ہی متاثر ہوکر شروع ہوئی، دھاندلی والی بات پر وہ میرے دستِ راست بنتے اگر زندگی وفا کرتی۔ نام و نمود سے بندے کی طبیعت اکتاتی ہے ورنہ ضرور بتا دیتا کہ چودہ نکات، سول نافرمانی اسی ناچیز کی ذہنی کاوشیں تھیں۔
تھوڑا عرصہ جناح کو آبزرو کیا اور جان لیا کہ یہ لڑکا جوشیلا ہے جو چاہتا ہے کرلے گا اسے اپنے حال پہ چھوڑ دو اور کرکٹ کو اپنا لو، یہ ہوتا ہے لیڈر یہ ہوتا ہے وژن۔

:قیامِ انگلستان

آکسفورڈ کیلئے گھر سے نکلتے وقت انسٹرکشنز ملی تھیں کہ بیٹا فرنگیوں کے دیس سے خالی ہاتھ نہ آنا، پہلےورلڈ کپ بعد میں بیگم لے کر آیا یہ ہوتی ہے فرمابرداری۔ دیگر واقعات محض اوراقِ پریشاں ہے بس حبیب جالبؔ نے جیسے کہا

؎
یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا
جہاں گئے داستاں چھوڑ آئے

قیامِ انگلستان کے دوران شاعری سے شغف ہوا، میں تو پہلے ہی بے پناہ مشہور تھا سو اقبالؔ نامی اک نوجوان جسے پہلے اپنے خواب بھی سناتا تھا ، کو بھیجتا رہا کہ اپنے نام سے چھپوا کے مشہور ہوجائےبعد ازاں فیض احمد فیضؔ کو بھی اپنی مزاحمتی نظمیں بھیجتا رہا، عجیب بات ہے کے دونوں نوجوانوں کی فوتگی کے بعد شاعری کا شوق یکسر ختم ہوگیا۔ پاکستان بننے کے بعد زیادہ تر کرکٹ اور آنکھ مچولی کھیلی۔ کپ، بیگم اور ڈگری کے ساتھ وطن لوٹا ۔

:تحریکِ نیا پاکستان

کرکٹ سے فراغت کے بعد ہسپتال بنایا، اسکے بعد تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے پاکستان کی بنیادیں رکھنے کی کوشش کی، کسی نے ساتھ نا دیا لیڈا 15-16 سال کھجل ہوتا رہا، پھر ایک نورانی بابا پاشا سرکار ملے اور موری نیئا پار لگی، انقلاب کی راہیں روشن ہونے لگیں لیڈر قربانی کے بغیر نہیں بنتا سو لفٹر سے گرا، اور کچھ زیادہ ہی گر گیا۔ قوم فتوحات اور قربانیوں کو فراموش کرنے لگی سو دھرنے کی صورت غبارے میں ہوا بننے کی ٹھانی۔ مصداق اس سی گریڈ مثال کے،زمین ملی بنجر دوست ملے کنجر، مجھے پارٹی کے امور چلانے واسطے فرشتوں نے ایسے ایسے انسان مہیا کیئے کہ خدا کی پناہ، انہیں تو جنت میں بھیج دو وہاں بھی نقص نکال آئیں گے، کوئی تعلیمی طور پہ ذلیل کرواتا ہے، کوئی بیلٹ بکس اٹھا لے جاتا ہے، کسی کو اپنے جہاز کا زعم ہے کوئی اس غم میں خود جہاز ہوا پھرتا ہے۔ کسی کی اپنی پیری فقیری کی دکان چلتی ہے تو بی بی مزاری میری سمجھ سے باہر ہے، یہ وہ پالتو ہے جو سال میں ایک بار ضرور مالک کو کاٹتا ہے۔ ورک جیسے با صلاحیت اور مبشر جیسے با ضمیر لوگ بھی مل تو گئے مگر پھر بھی

؎
؎ اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا
میرا دھرنا وہاں ٹوٹا جہاں پانی گرم تھا

:دھاندلی اور دھرنہ

نیا پاکستان مصالحہ مووی کی طرح بنانے کی کوشش کی تھی جس میں تمام مصالحہ جات رکھے مگر اللہ غارت کرے اس نورے کو، بڑی قسمت والا ہے جو مجھ سے بچ گیا۔ باقی گندے انڈے میرے بستے میں تھےمیرے جلسے میں باغی باغی کے نعرے لگا کر میری ہی واٹ لگا گیا، ان سے اچھا مشرف تھا، وزیرِاعظم بنا رہا تھا، ہک ہا، کیا وقت تھا۔ دھاندلی اور دھرنے کا وہی مرغی اور انڈے والا حساب ہےکہ کون پہلے آیا، لوگ دھرنے کو میرے سیاسی کیرئیر کا عروج بتاتے ہیں اور سیانے میری سیاسی موت، خیر جو بھی ہو، لیڈر نہ ڈرتا ہے نہ ہارتا ہے۔ اتنے دن تو “شعلے” بھی نہیں چلی جتنے دن میرا آئٹم چل گیا، اچھے پیسے مل گئے اب اس عمر میں کمائی مشکل ہوگئی ہے۔ دھرنے کی کرامتیں دیکھیں سوشل میڈیا پہ میرا راج ہے، اینکرز میرے اپنے، جہاز مجھے مل گیا، روبوٹس کی ایک فوج جو میرے یک جنبشِ لب پہ اپنے بزرگوں تک کو سرِ عام گالیاں دے دیتے ہیں، اور کیا چاہیئے، ہیں جی؟ یہ البتہ درست کہ آیا میں نورے کی ہمشیرہ والدہ ایک کرنے تھا اور میری اپنی خاندان کی تمام خواتین انہوں نے یکجا کردیں، اس نے

؎

میرے ہی “بلے” سے میری دھلائی کی
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

دھاندلی تو اتنی ہوئی کہ الامان۔ ہم نے بلا اور شیر دو انتخابی نشان مانگے تھے جبکہ ہمیں صرف بلا دیا گیا جسکی وجہ سے ہمارے آدھے ووٹ غلط کاسٹ ہوگئے، باقی مجھے اپنے مخالفین سے زیادہ دوستوں نے نقصان پہنچایا۔ ثبوتوں کے نام پر چولوں نے جتنی ردی اکٹھی کی تھی اسکو بیچ کر ہی جج کرلیتے۔ رہتی سہتی کسر میرے دھرنوی کزن مولوی طاہر نے پوری کردی، ایسا مردِ مومن ہے کس شان سے اپنی بات سے پھرتا ہے کہ مجھے بھی شرما دیتا ہے۔

:اختتامیہ

لوگ کہتے ہیں سیاسی کیرئیر کے عروج پہ شادی کیوں کی؟ پہلے لوگ نشہ کرنے کا الزام لگاتے تھے، بھئی کلا بندہ کی کرے، نہ بیوی نہ بچے نا کوئی اور خاطرخواہ کامیابی، ڈگری والی بات کے بعد سے عائلہ بھی دور دوررہتی تھی ، شیریں مزاری اور نعیم الحق کے ہوتے شکر کریں میں صمد بونڈ کے نشے پہ نہیں لگ گیا۔ 35 پنکچر، پپو، 1 ارب د درخت، 350 ڈیم، زندہ لاشیں، گرم پانی، گیزر اور یو ٹرن اسی نشے کے سبب کی ذہنی اختراعات ہیں۔ ایسے میں سامنے عوام پیچھے ریحام، یا سامنے گرتا یا پیچھے، سو لیڈر نے فیصلہ کرلیا، بیوی ریڈی میڈ بچوں کیساتھ مل گئی اور اب گھر میں ہی انٹرویو بھی ہوجاتے ہیں

؎

ادھیڑ عمر میں اچھا لگتا ہے
جرابیں جو جرابوں میں ملیں

نشے کی لت چُھٹ تو گئی لیکن گھر اور سیاست کی کھپ دیکھ کر سوچتا ہوں وہی نشہ اچھا تھا۔ مئی 2013 سے جو چمونےوقتاً فوقتاً لڑتے تھےدھاندلی کمیشن والے ڈاکٹروں نے اچھا علاج کیا ہے، مگر انقلابی چورن اور تبدیلی چینی سے پرہیز بتائی ہے کہ انقلابی چمونے سوئے ہیں ابھی مرے نہیں۔
“ماہِ الیکشن سنہ2013 میں عمرِ عزیز کے 62 ویں سال میرے ساتھ دھاندلی ہوئی ۔”

:مصنف کے بارے میں

AbrarQ

نام ابرار قریشی، عام انسان ہوں غلط کو غلط کہتا ہوں یہی میری غلطی بھی ہے اور اچھائی بھی۔ دنیا کو اپنی نظر سے دیکھتا ہوں اور دکھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
مزید جاننے کیلئے @abrar_kureshy

Aik Din Nawaz Sharif Ke Sath

$
0
0

 

ایک دن نواز شریف کے ساتھ – سوشل میڈیا کی نظر سے

صبح آنکھ کھولی تو ادھ رڑکے کا ایک بڑا کولر بیڈ کے سرھانے  منتظر تھا ، اس نعمت سے لطف اندوز ہوکر اللہ کا شکر ادا کیا ، اسکے بعد پانچ دفعہ گردن ادھر اور پانچ دفعہ ادھر اور پھر پانچ دفعہ اوپر اور پانچ دفعہ نیچے کرکے  ورزش کی – اسی طرح دس دفعہ انگلیوں کو پھیلایا اور بند کیا، آخر امور مملکت کو چلانے کیلیئے بندے کا صحتمند ہونا بھی ضروری ہے ، اس زبردست ایکسرسائز کے بعد مینگو ملک شیک کے تین جگ تو بنتے ہی ہیں۔ اللہ کا شکر کرتےہوئے بستر سے باہر نکلے، نہا دھو کے تازہ دم ہونے کے بعد ناشتے کی میز پر آئے جہاں اللہ کے فضل و کرم سے نہاری، سری پائے، چکڑ چھولے ، حلوہ پوری ، تلوں والے کشمیری کلچے انصاف کے منتظر تھے ، ایک ایک کر کے ان سب کی سنی ۔ بیچ میں وقتاً فوقتاً لسّی کا دور چلتا رہا

ناشتے سے فارغ ہوئے تو بلیک فون پنریندر مودی کا فون آگیا ، ان سے فوج کو زچ کرنے کے نت نئے طریقوں پر سیرحاصل گفتگو ہوئی اسکے علاوہ کاروباری معاملات زیر بحث آئے اور آخر میں انہیں سرحد پر ہلکی پھلکی گولا باری کرنے کی درخواست کی جو انہوں نے بخوشی منظور کرلی ۔ مودی جی کے فون سے فارغ ہوئے تو اشرف غنی کا فون آگیا ان سے بھی فوج کو قابو رکھنے پر گفتگو ہوئی اور کابل میں ایک آدھ چھوٹا دھماکہ کرواکے ملبہ آئی ایس آئی پر ڈالنے پر اتفاق ہوا ۔ پھر طیب اردگان کا فون آگیا اور انہوں نے فوج کو نکیل ڈالنے کے اپنے تجربے کی رو سے کچھ ہدایات دیں اور کمیشن و کک بیک کی تازہ صورتحال سے آگاہ کیا ۔ روزانہ کی طرح آخری کال چین سے تھی جس میں بجلی اور اقتصادی راہداری میں کمیشن وغیرہ کے معاملات زیربحث آئے۔ اتنی عرق ریزی کے بعد چہار مغز، باداموں کا حلوہ تو یقیناً بنتا ہی تھا سو حق بحق داررسید کے مترادف اسے اسکے صحیح مقام تک پہنچايا ، لسّی کا بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں ۔

مقامی معاملات میں سب سے پہلا فون چھوٹے میاں صاحب کو کیا اور انکے ذریعے پنجاب پولیس کو کم از کم پانچ بندے پھڑکانے کی ہدایت کی تاکہ دھشت قائم رہے ۔ اسکے بعد خواجہ آصف، احسن اقبال ، خرم دستگیر، سعد رفیق، شاہد خاقان اور “پیدا” والی دوسری وزارتوں کو “پیداوار” بڑھانے اور ریکوریاں تیز کرنے کی ہدایات کیں ، خشکی والے اس کام کے دوران کدو کا حلوہ اور خشک میوہ جات کا لسّی کے ساتھ استعمال جاری رہا اسی دوران بلیک فون پر زرداری صاحب کافون آگیا ان سے مالی معاملات کےعلاوہ فوج کی ٹبری ٹیٹ کیئے رکھنے پر اتفاق ہوا ۔ اگلی کال الطاف حسین کی تھی ان سے بھی فوج کے بارے میں مخالفانہ تقریر کا مسّودہ زیربحث آیا ۔ الطاف بھائی  کی باتیں سن کر تو اچھے خاصے بے حس انسان کو خشکی ہوجاتی ہے ، میاں صاحب تو پھر بہت ہی حساس طبیعت کے آدمی ہیں اسلیئے حمزہ شہباز کے فارم پہ علیحدہ سے پالی گئی خصوصی دیسی مرغیوں کے انڈوں کا حلوہ لسّی کے ہمراہ ضروری تھا سو کھایا گیا

اب دفتر روانہ ہوئے رستے میں مولانا فضل الرحمان کو فون پر تحریک انصاف کی ایوان سے بیدخلی قرارداد کے مسّودے پر اعتماد میں لیا ، دفتر پہنچے تو راحیل شریف کی جانب سے “تھنگز ٹوڈو” کی تازہ فہرست موصول ہوچکی تھی اور وہ فون پر بات کے منتظر تھے انہیں کال ملاکرنئی ہدایات اور سابقہ  امور میں تساہل پر سرزنش بھی شکریۓ کے ساتھ وصول کی ۔ اس بدمزگی کے بعد پیٹھے کا حلوہ ضروری ہوچکا تھا جسے لسّی کے ساتھ تناول فرمایا ۔ پھر ایاز صادق کو کال کرکے انہیں تحریک انصاف کی اسمبلی آمد کے بارے میں ہدایات جاری کیں ۔ اسکے بعد بلیک فون سے کچھ کالعدم تنظیموں سے رابطے کرکے انہیں فوج کو پھنسائی رکھنے کی حکمت عملی پر اعتماد میں لیا ۔ نجم سیٹھی سے کرکٹ کے مالی امور اور اپنے حصے پر گفتگو کی ۔ آئی بی کے سربراہ سے مختلف فوجی ، سیاسی اور صحافتی شخصیات کے فون ٹیپنگ کی صورتحال دریافت کی ۔

اب ظہرانے کا وقت ہوچکا تھا اسلیئے ملحقہ ڈائننگ روم پہنچے جہاں سالم ہرن،خرگوش، مرغ مسلم،سری پائے، بریانی، ہریسہ ، گوشتابے، فیرنی اور شاہی ٹکڑوں کو باری باری اپنی توجہ کا مرکز بنایا اس دوران ایک ہاتھ لسّی والے ڈسپنسر پر رہا ۔

اب قیلولے کا وقت ہوچکا تھا اسلیئے ملحقہ خوابگاہ کا رخ کیا ۔ چند گھنٹے آرام کے بعد شام کی چائے کا وقت ہوچکا تھا ۔ کشمیری نمکین سبز چائے طیب اردگان کے تحفے “بکلاوہ” اور لاہور کی خصوصی خطائیوں کے ساتھ نوش جاں فرمائی ۔ اس دوران گاڑی تیار تھی سو بیٹھ کر رہائشی حصے کی راہ لی ۔

گھر پہنچ کر سب سے پہلے مطبخ میں جرمنی سے منگوائے گئے خصوصی لو ہیٹ برنر پر رکھے ہوئے “شب دیگ” کا معائنہ کیا ۔ اس دوران ملازم نے پودینے والی لسّی پیش کی ۔ صاحبزادے لندن میں اپنے دفتر پہنچ چکے تھےان سے کاروباری ومالی معاملات پرگفتگو فرمائی ۔ صاحبزادی کو بلا کر ان سے اربوں روپے کے سرکاری معاملات پر ان کی رائے لی ۔ اس دوران سوئیٹزرلینڈ سے پرسنل بینکر کا فون آگیا، اس سے اکاؤنٹ کی صورتحال معلوم کی ۔ میاں منشاء ، لکشمی متل اور جندل سے خوش گپیاں فرمائیں اور طعام گاہ روانہ ہوئے جہاں شب دیگ ہمراہ جملہ لوازمات (جو ظہرانے پر موجود تھے) کا تازہ ایڈیشن سرینگر سے آئے ہوئے خصوصی باورچی اعلیٰ اور اسکے لاہوری، امرتسری اور گوجرانوالوی معاونین کی کوششوں کا منہ بولتا ثبوت بن کر موجود تھا ۔ ان سب سے انصاف کے بعد خوابگاہ روانہ ہوئے۔

خوابگاہ میں پہنچ کر خصوصی ہاٹ لائن سے خادم حرمین شریفین اور باراک اوبامہ کا اقتدار کا ایک اور دن بخیروعافیت گذرجانےپر شکریہ ادا کیا ۔باداموں والا دودھ پینے کے بعد بستر شاہی پر دراز ہوکر کشمیرہ کے نرم وملائم کمبل کو اوڑھ کر خواب و خرگوش کے مزے لوٹنے لگے

نوٹ: اس مضمون میں پائی جانے والی بیشتر باتیں آپکو عجیب مگر تواتر سے سنی سنائی ملیں گی طالبعلم صرف انکو یکجا کرکے آپ کی بصارتوں کی نذر کرنے کا سزاوار ہے اسلیئے جو چیز بھی بری لگے اسکا تبرہ اسکے اصل موجد کی روح کو بھیجیئے ۔ پٹواری حضرات بھی اسکو مذاق کے طور پر ہی لیں اور مورچہ بند ہوکے چڑھائی کا فاسد خیال دل میں نہ لائیں

Author can be found on Twitter @anaulhaq

Aah General Sahib

$
0
0

آہ جنرل صاحب

جنرل صاحب گذر گئے اور میں قلم ہاتھ میں تھامے سوچ رہا ہوں کہ ان کی وفات پر کیا لکھوں – کیونکہ لکھنے کو کچھ ہے ہی نہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میں انہیں ذاتی طور پر نہیں جانتا تھا

جنرل صاحب میرا کالم نہیں پڑھتے تھے سو مجھے فون کر کے اس پر رائے دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا – میرا کالم پڑھنا تو دور کی بات ، انھیں شاید میرا نام تک نہیں معلوم تھا ورنہ جس طرح کے عجیب و غریب کالم نگاروں کو وہ فون کرتے رہے ہیں، کوئی بعید نہیں تھا کہ مجھے بھی فون کر دیتے یا کم از کم مسڈ کال ہی مار دیتے

جنرل صاحب ایک شفیق شوہر تھے – شوہر تو خیر میں بھی برا نہیں – اگلے دن ہی آپ کی بھابھی کو سخت پیٹ درد اٹھا تو میں انھیں فوری طور پر ایمرجنسی لے گیا اور خود ان کے سرہانے بیٹھ کر ففٹی شیڈز آف گرے پڑھتا رہا – قسم لے لیں اگر سگریٹ سلگانے کے لئے بھی باہر نکلا ہوں – ہسپتال جاتے ہوے اپنے تمام صحافی دوستوں کو کال کر کے بتا دیا کہ شاید ان میں سے کوئی جنرل صاحب کو بتا دیں اور وہ عیادت کے لیے آ جائیں ، پر کتھوں

جنرل صاحب بہت ملنسار آدمی تھے – یہ میں نے سن رکھا تھا – سو ایک دفعہ جب اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے سوچا کہ اس بار انھیں ملے بغیر نہیں لوٹنا – بہت تحقیق کی اور پتہ چلایا کہ جنرل صاحب سے ملنے کا بہترین ذریعہ میجر عامر ہیں – وہ ہر بندے کو اٹھا کر جنرل صاحب کے پاس لے جاتے ہیں – اب سچ تو یہ ہے کہ میری میجر عامر سے بھی سلام دعا نہیں – ان کے گھر پہنچا تو چوکیدار نے اندر اطلاع تک کرنے سے انکار کر دیا – میں نے ان کے گھر کے باہر پڑاؤ ڈال دیا کہ کبھی تو گھر سے نکلیں گے – تین ایک گھنٹوں کے بعد ایک گاڑی میرے پاس آ کے رکی اور اس میں سوار بڑی بڑی مونچھوں والے افراد مجھے گاڑی میں بٹھا کر ایک کوٹھی میں لے گئے – وہاں جو کچھ ہوا اس کا تعلق جنرل صاحب سے نہیں سو یہ کہانی پھرسہی- ویسے بھی اگر دو ایک دن چلنے میں مشکل ہو تو کیا – آخر کو ادارے ہمارے اپنے وطن کے ہی ہیں ، پرائے تو نہیں

ایک دفعہ جنرل صاحب کی صاحبزادی کو اپنے ٹرانسپورٹ بزنس میں ایک مسئلے کا سامنا ہوا تو میں نے سوچا کہ یہ ایک سنہرا موقع ہے جنرل صاحب سے تعلقات بنانے کا – کئی سال ویگنوں میں سفر کرنے کی وجہ سے میں کئی ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کو جانتا تھا لیکن اس سے پہلے کہ میں انھیں لائن اپ کرتا ، ایک اور کالم نگار نے وہ مسئلہ حل کروا دیا – جنرل صاحب کی انکساری کا یہ عالم تھا کہ بعد از ریٹائرمنٹ ان کے تمام مسئلے کالم نگاروں نے حل کروائے – جنرل صاحب نے خود کبھی اپنے تعلقات استعمال نہیں کے – گمان غالب ہے کہ ایک دفاعی تجزیہ نگار اگر آج کل سعودی جیل میں نہ ہوتے تو وہ شاید جنرل صاحب کو مرنے تک سے بچا لیتے

لوگ کہتے ہیں کہ افغان مجاہدین جنرل صاحب سے بہت محبت کرتے تھے – ایک دن مجھے گلی میں ایک افغان مجاہدین نظر آیا جو بچوں سے پیسے لے کر نشانے بازی کروا رہا تھا – میں نے بھی نشانے بازی کے بہانے اس سے جنرل صاحب کے بارے میں پوچھا – پندرہ منٹ تک وہ مجھ سے اپنے غبارے پھٹوانے کے دوران جنرل صاحب کی وجاہت کے گن گاتا رہا – جاتے ہوئے میں نے اسے کہا کہ بندہ خدا ، وجاہت کے علاوہ بھی کچھ بتا – بولا “خانا ، وہ ہیروئین کو ڈا-نس بوہت اچھا کراتی تھی” – تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ بد بخت تو عجب گل کی بات کر رہا تھا

جنرل صاحب ایک سچے پاکستانی تھے – یہ مجھے لوگوں نے بتایا ہے – چونکہ میں ان سے کبھی ملا نہیں اس لئے معلوم نہیں کہ الیکشن میں دھاندلی کروانےمیں حب الوطنی کا کتنا حصّہ ہوتا ہے – اور جس طرح وہ سچے پاکستانی تھے اسی طرح کے سچے مسلمان بھی تھے – اس دوسرے امر کی دلیل یہ ہے کہ وہ ٹھوس شواہد کے ہوتے ہوئے بھی کسی واقعے کی صحت سے انکارکرنے میں جھجھکتے نہیں تھے

جیسا کہ بہت سے دوسرے کالم نگار لکھ رہے ہیں مجھے بھی ان سے سینکڑوں اختلافات تھے لیکن انہیں کالم نگاروں کی طرح مجھے ان سے محبت اور عقیدت بھی تھی – ویسے تو مجھے اور بھی بہت سے لوگوں سے اتنے ہی اختلافات ہیں ، اور ان میں سے بعضے تو جنرل صاحب سے بھی زیادہ لمبی لمبی پھینکتے ہیں ، لیکن ان میں سے کوئی بھی سابق جرنیل نہیں سو کاہے کی محبت اور کہاں کی عقیدت بھیا

اور بھی لکھتا لیکن ناشناسائی مانع ہے – دل تو چاہتا ہے کہ ان کی یادوں کے اجالوں کی مدد سے میں اپنی زندگی پر کچھ اور روشنی ڈالوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ
کیا میرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

About The Author:
Rafi Aamer is a USA based freelance writer and can be reached at Twitter on @Rafi_AAA

FDoKOjB6_400x400

London Plan – 1

$
0
0

لندن پلان – حصہ اول

پسِ منظر

یہ منظر تھا سپریم کورٹ بار کا اور وکلاء کنونشن سے خطاب کررہے تھے علی احمد کُرد

بہت پہلے ، ہم نے یہ کہا ، اس شخص سے ہم نے یہ کہا کہ اس دفعہ یہ جنگ ، جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ بدسلوکی کرکے، جو شبخون مارکے، جس جنگ کا آغاز تم نے کیا ہے ،ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ خیال رکھنا۔ یہ جنگ کوئی معمولی جنگ نہیں۔ یہ جنگ دو وردیوں کی جنگ ہے۔ اور ہم نے خبردار کیا تھا کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا۔ یہ ملک اور اس کے عوام ، کسی کے باپ کی نہ جاگیر ہیں نہ غلام ہیں- اس ملک اور اس ملک کے شہریوں کا یہ ولولہ دیکھو ۔۔۔ کیا یہ ولولہ ہے تمہارے ان حواری جرنیلوں میں ، جن کو شرم نہ آئی ایک آدمی کو پانچ گھنٹے قید رکھ کے-ہم تمہارے اس تاج کو نہیں مانتے، ہم تمہارے اس تخت کو نہیں مانتے- ہم تمہارے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہیں

 سپریم کورٹ بار کے وکلاء کنونشن میں 26 مئی 2007 کو کی گئی تقریر سے اقتباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ صفحات تھے جنگ اخبار کے اور کالم نگار تھے عطاءالحق قاسمی

یہ شخص جو کل تک خدا کے لہجے میں بول رہا تھا اور قوم کو مُکے دِکھاتا تھا آج نشانِ عِبرت بنا ہوا ہے۔ کروڑوں روپوں سے تعمیر کردہ اس کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے کے اسے وہاں بند کردیا گیا ، اب ہر مقدمے میں اس کی ضمانتیں ہوتی جارہی ہیں لیکن حکومت نے اب آرٹیکل 6 کے حوالے سے ان پر مقدمہ قائم کیا ہے جس کا تعلق 3 نومبر کی ایمرجنسی سے ہے۔ میرے نزدیک جنرل پرویزمشرف قوم کے مجرم میں لیکن قارئین کو میری اس رائے سے اتفاق کا مکمل حق ہے کہ اب اس گند میں ہاتھ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ حکومت کو اس ساری کہانی کے اختتام پرسوچنا پڑے گا کہ اس نے اس حوالے کیا کھویا ، کیا پایا؟

عطاءالحق قاسمی کے 21 نومبر 2013 کو شائع ہونے والے کالم “روزنِ دیوار” سے اقتباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس روز ڈی چوک پر پورے ملک سے اکٹھے ہونے والے وکلاءکی جانب سے لگائے جانے “گو مشرف گو” کے نعروں کی گونج میں ، نوازشریف نے تقریر کی تھی، اسی روز لندن پلان کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی تھی

9 مارچ 2007 کی اس صبح تک پاکستان کی فوج اور عدلیہ اس گٹھ جوڑ کے دو مضبوط ترین ستون تھے جسے عرف عام میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر اسٹیبلشمنٹ میں اگرچہ سب سے مضبوط اور طاقتور دھڑاہمیشہ سے فوج ہی رہی ہے لیکن عدلیہ اس کا مضبوط ترین حلیف ضرور تھی۔ یہ عدلیہ ہی تھی جو فوجی حکمرانوں کے تمام کیے دھرے کوآئینی چھتری کا تحفظ فراہم کرتی رہی تھی۔ دوفیصلہ ساز اداروں کا یہ گٹھ جوڑ اتنا مضبوط تھا کہ مقبول سے مقبول ترین عوامی رہنما بھی راندہ درگاہ بنا دیے جاتے رہےتھے۔ 9 مارچ کی اس صبح تک فوج، عدلیہ ، افسرشاہی ، اور ان کے حامی سیاستدان ایک ہی صفحے پر موجود تھے ۔ لیکن 9 مارچ کا سورج کچھ اس انداز میں غروب میں ہوا کہ فوج کے چند بڑے جرنیل چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو پانچ گھنٹوں تک استفعیٰ دینے پر مجبور کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے لیکن انھیں اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ فوج کی جانب سے پاکستان کی حکمرانی میں شامل ہونے والے اپنے حلیفوں کو تگنی کا ناچ نچانے کی یہ پہلی کوشش نہ تھی۔ اس سے پہلے “گستاخ” سیاستدان مسلسل ان کے نشانے پر رہے تھے – تاہم ان سیاستدانوں میں ذوالفقارعلی بھٹو اور نوازشریف ہی ایسے سیاستدان تھے جو کہ نہ صرف عوامی پذیرائی میں بہت آگے جا چکے تھے بلکہ خاکی چھتری سے نجات پا کر اپنی الگ شناخت بنانے میں بھی کامیاب ہوئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو اگرچہ اسی فوج اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ کا شکار ہوگئے تھے لیکن ان کی سیاسی پارٹی کئی ہچکولے کھانے کے بعد بھی پوری آب و تاب کے ساتھ سیاسی منظرنامے پر موجود تھی۔ نوازشریف نے تاہم ایسے ہی کسی بھلے وقت کے انتظار میں جلاوطنی قبول کی تھی اور اس وقت تک سیاسی افق پر دوبارہ سے جگمگاتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ عدلیہ اور فوج کے درمیان چھڑنے والی اس جنگ میں، ان دونوں مضبوط سیاسی قوتوں نے اپنی ساری طاقت عدلیہ کے پلڑے میں ڈال دی۔ اس جنگ کا انجام یوں ہوا کہ ایک مضبوط ترین فوجی حکمران ایوان صدر میں قید ہوکررہ گیا اور عوام اسی ایوان صدر کے سامنے کھڑے ہوکر “گو مشرف گو” کا نعرہ لگارہے تھے۔ اقتدار اور نوکری کی اس جنگ نے افواج پاکستان کو اس قدر بے توقیر کیا کہ اپنے ہی ملک کے اندر ان کے لیے کہیں نکلنا مشکل ہوگیا اور یہ حُکمِ شاہی جاری کرنا پڑا کہ وردی پہن کر عوام کے درمیان نہ جایا جائے -یہی نہیں بلکہ بالوں کو اس انداز میں ترشوانے پر بھی پابندی عائد کردی گئی جس سے ظاہر ہوتا کہ اس شخص کا تعلق افواج پاکستان سے ہے۔ یہی اقتدار کی جنگ تھی جس نے افواجِ پاکستان کو اس قدر مشکل میں ڈال دیا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں اس حقِ حکمرانی سے ہاتھ دھونا پڑے جسے فوج کا معمولی سے معمولی اہلکار بھی اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا

فوج کے ہاتھوں سے حقِ حکمرانی کا یوں نکل جانا اس کے لیے قابلِ قبول تو نہ تھا لیکن حالات کے پیشِ نظر اسے یہ کڑوی گولی وقتی طور پر نگلنا ہی پڑی۔ یہی وجہ تھی کہ ملک میں جمہوریت کے بحالی کے باوجود بھی فوج کے اندر اس شکست کو تسلیم کرنے کی مزاحمت جاری رہی اور طویل فوجی مارشل لاء کے بعد وجود میں آنے والی جمہوری حکومت کے خلاف ریشہ دوانیوں کا سلسلہ فوری پر طور شروع ہوگیا۔ ایک طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس لوٹنے والے نوازشریف ، اس دوران طے پانے والے میثاق جمہوریت پر قائم تھے اور فوج کو وہ کندھا فراہم کرنے سے مسلسل انکاری رہے جس کے بل بوتے پر ماضی میں جمہوریت کا شکار کیا جاتا رہا تھا۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو سب سے بڑا خدشہ یہی تھا کہ اگر سیاستدانوں نے نظام حکومت چلانے میں کامیابی حاصل کرلی تو وہ حقِ حکمرانی ، جس کا چھِن جانا اس لمحے وقتی لگتا تھا، وہ شاید دوبارہ کبھی دوبارہ ان کے پاس نہ لوٹ سکے۔ نہ صرف یہی بلکہ فوج کے اندر بہت سے لوگ اس بات سے بھی خائف تھے کہ نوازشریف ، جو کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ اقتدار کی غلام گردشوں کے قریب تر ہوتے جارہے تھے، اقتدار میں آنے کے بعد بہت سے معاملات پر ان کا احتساب کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ یہ خدشہ اس وقت اور بھی زیادہ توانا ہوتا نظرآتا جب پیپلزپارٹی کی سربراہی میں قائم اتحادی حکومت کی حالت پتلی سے پتلی ہوتی جارہی تھی اور نوازشریف ایک دفعہ پھر سے دوتہائی اکثریت حاصل کرتے نظر آنے لگے۔انھی خدشات کے پیش نظر نوازشریف کا رستہ روکنے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ اس سلسلے میں پہلی بڑی کوشش تو تحریک انصاف کے تنِ مردہ میں نئی روح پھونکنےسے ہوئی لیکن کچھ ہی عرصے بعد اندازہ ہوگیا کہ یہ وار بھی اوچھا ہی پڑا ہے اور تحریک انصاف مطلوبہ انتخابی نتائج دیتی نظرنہیں آرہی۔ اسی لیے متبادل رستہ اختیار کرتے ہوئے کینیڈا سے شیخ الاسلام کو درآمد کرکے انتخابات کا بوریا بستر ہی گول کرنے کوشش کی گئی- لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ شیخ الاسلام کا ڈی چوک پر دیا گیا دھرنا چار دن بھی نہ چل سکا تو مجبوری کے عالم میں انتخابات کا انعقاد قبول کرنا ہی پڑا۔اگرچہ انتخابات کا انعقاد تو قبول کر لیا گیا لیکن اس نیت کے ساتھ کہ موقع ملتے ہی اپنی سی کرگزریں گے

پاکستان میں 2013 کے انتخابات منعقد ہوئے تو تمام تر بھد اڑائے جانے کے باوجود بھی نوازشریف نے اپنے مخالفین کو چاروں شانے چِت کردیا اور اسی ایوان وزیراعظم میں آن براجمان ہوئے جہاں سے انھیں 12 اکتوبر 1999 کی رات ہتھکڑیاں لگا کر گمشدہ کردیا گیا تھا۔ افواج پاکستان تاہم ان انتخابات اور ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو تسلیم کرنے کو تیار نہ تھیں ۔ انتخابات کے فوری بعد ہی یہ “پسماندگان” دو برس کے اندر اندر تمام نظام کے دھڑام سے مسمار ہونے کی آس لگا بیٹھے۔ جب یہ امید بھی بر ہوتی نظر نہ آئی تو اس سلسلے میں کچھ ہاتھ پاوں مارنےکا فیصلہ ہوا ۔ اسی بات کی خبر افواج پاکستان کے خودساختہ ترجمان بنے پھرتے کالم نگار ہارون رشید نے اپنے 16 اکتوبر 2013 کے کالم میں دی- موصوف نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی کی جانب سے کاکول ملٹری اکیڈمی میں کی گئی تقریرکے اقتباسات کے ذریعے ایک ہی بات دہرائی کہ حالیہ انتخابات کے نتائج اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول نہیں – ہارون رشید کی بات اس لیے بھی اہمیت اختیارکرجاتی ہے کیونکہ وہ جنرل کیانی کے انتہائی قریب تصور کیے جاتے ہیں- یہی ہارون رشید تحریک انصاف اور عمران خان کے بھی انتہائی قریب تصور کیے جاتے تھے۔ اور انہی کے 12 دسمبر 2013 کے کالم کے توسط سے یہ خبر سامنے آئی کہ عمران خان اگلے برس ، یعنی 2014 میں ، حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں اور اس معاملے میں شیخ رشید اور ڈاکٹر علامہ طاہرالقادی ان کے ہم رکاب ہیں – تاہم اس خبر کی تصدیق کے لیے زیادہ جتن نہیں کرنے پڑے کیونکہ اسی مہینے بھارت میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار کے دوران عمران خان خود ہی یہ انکشاف کربیٹھے کہ اگلے برس موسم گرما کے بعد پاکستان میں ان کی حکومت آنے والی ہے

ظاہر ہے یہ تمام کہانیاں بے سبب تو نہیں تھیں۔ حقیقت میں ان زبان زدِعام کہانیوں کے پیچھے نوازحکومت اور فوج کے درمیان وہ کشیدہ تعلقات تھے جن کی بنیاد کئی برس پہلے ہی رکھی جاچکی تھی اسٹیبلشمنٹ کے زیرسایہ سیاست میں آنے والے نوازشریف 1990 کی دہائی سے اپنی پرانی نیازمندی سے منحرف ہوچکے تھے۔ تاہم 1999 کی فوجی بغاوت اور اس کے بعد جنم لینے واقعات نے ان کے فوج کے ساتھ تعلقات کو وہاں پہنچا دیا تھا جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ عدلیہ اور فوج کے درمیان چھڑنے والی جنگ میں نوازشریف نے نہ صرف عدلیہ کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا بلکہ اس کے بعد بننے والی جمہوری حکومت کے خلاف ہونے والی ریشہ دوانیوں کے رستے میں بھی سب سے بڑی دیوار ثابت ہوئے۔ نوازشریف نے مسلسل پانچ برس تک ہرسہ ماہی میں بنتی سازشوں کا رستہ روکتے ہوئے عوام کو یہ بھی باور کروادیا تھا کہ اب حکومتوں کی تبدیلی خفیہ ہاتھوں کی مرہونِ منت نہیں ہوگی۔ اس کے بعد وہ فوج کی تمام تر مخالفت کے باوجود انتخابات نہ صرف جیتے بلکہ ایک مضبوط حکمران بن کے بھی سامنے آتے نظر آرہے تھے۔ جنرل مشرف کی جی ایچ کیو آمد سے پہلے اور بعد میں بھی اسٹیبلشمنٹ پر ایک ایسے گروہ کی اجارہ داری تھی جو کہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے زیادہ اہمیت سیاست میں ایک متحرک کردار کو دیتا تھا۔ جنرل کیانی کے چھ سالہ دور سپاہ سالاری میں بھی وہی گروہ حاوی رہا اور جنرل کیانی بذات خود بھی دہشت گردی جیسی عفریت سے نمٹنے کی بجائے سیاسی ملاقاتوں میں زیادہ مصروف دیکھے گئے۔ جیسے جیسے جنرل کیانی کے سابق ہونے کے دن قریب آرہے تھے، اس طرح کی رائے عامہ تیار کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسے جنرل کیانی کو ایک اور توسیع دینا ناگزیر ہے۔ اور اگر ایسا نہ بھی کیا جاسکا تو انھی کے نامزد کردہ نائبین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ لیکن جب فیصلے کا وقت آیا تونوازشریف نے نہ صرف جنرل کیانی اور ان کے نائبین کو فارغ کردیا بلکہ ایک ایسے جرنیل کو آرمی چیف کے عہدے کے لیے سامنےلائے جن کی شہرت سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کی تھی۔ جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے پر اگرچہ قصیدہ گو گروہ کچھ کہنے کی ہمت تو ناکرسکا لیکن ان کے اترے ہوئے چہرے ان کے اندرونی جذبات کی ترجمانی کررہے تھے۔ جہاں نوازشریف سویلین برتری ثابت کرنے کی کوششوں مصروف تھے وہیں ان کے سامنے ملک کے طول و عرض میں پھیلی دہشتگردی کی عفریت سے نمٹنے کا چیلنج بھی تھا۔ یہ ایک ایسا موضوع تھا جس کے نزدیک کبھی کسی سیاسی حکمران کو پھٹکنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی تھی۔ نوازشریف نے نہ صرف ان معاملات پرتوجہ دینی شروع کی بلکہ سیکیورٹی اور خفیہ اداروں کی کارکردگی پر بھی گہری نظررکھنا شروع کردی۔ یہ بھی ان وجوہات میں سے ایک تھی جس نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی ، جو کہ انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے والوں میں سے ایک تھے، کے ساتھ ان کے تعلقات کو مزید کشیدہ کیا۔ اسی طرح نوازشریف ہمسایوں ممالک کے ساتھ تمام مسائل ختم کرکے پاکستان کو ایک اقتصادی راہداری بنانے کا وژن لے کے سامنے آئے۔ ان کے اس وژن میں افغانستان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے جہاں وہ ماضی کے برعکس عدم مداخلت کی پالیسی پرگامزن ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ کئی دہائیوں سے افغانستان میں تزویراتی گہرائی کی متلاشی فوجی قیادت کو یہ بات بھی سخت ناگوارگزری

نوازشریف کی ان کوششوں کا جواب بہرحال آیا۔ ملک بھر میں پھیلی دہشت گردی میں اضافہ دیکھا گیا اور پھر 10 محرم کے دن راولپنڈی کا سانحہ ہو گیا۔ اس سانحے کے ذمہ داران جو لوگ تھے، ان کی افواج پاکستان سے نیازمندی کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ نوازشریف کے پاس ایف آئی اے کی جانب سے رپورٹ آئی کہ اس سانحے کے ذمہ داران کو آبپارہ کی حمایت حاصل تھی جس کا مقصد نوازشریف کو سیکیورِٹی معاملات پر زچ کرنا تھا۔ نوازشریف نے جوابی وار کرتے ہوئے ماضی میں دودفعہ آئین پامال کرنے والے “فاتح کارگل” کو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کٹہرے میں لانے کا اعلان کردیا- جیسے ہی یہ اعلان ہوا تویوں لگا کہ جیسے کسی نے زخمی سانپ کی دم پر پاوں رکھ دیا ہو۔ اس پھنکار نما شور میں ہرمخالف نوازشریف کو چیلنج کرتا دکھائی دیا کہ اب یہ بات لازمی پوری کرنا۔ ابھی تمام مخالفین اسی بیان بازی میں پھنسے ہوئے تھے کہ ملکی تاریخ کے اس اہم ترین مقدمے کے لیے عدالتی بنچ بھی قائم ہوگیا اور “فاتح کارگل” کو حاضری کا بلاوہ آگیا۔ “فاتح کارگل” نے کئی پیشیاں ٹالنے کے لیے بے پناہ حیلے بہانے کیے اور انھیں اس سلسلے میں فوج کی جانب سے بھرپور حمایت ملی- ان میں سے سب مزےدار حیلہ تو وہ تھا جب موصوف عدالتی بلاوے کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے پیشی کے لیے گھر سے نکلے اور سیدھے اے- ایف- آئی- سی کے وارڈ میں پناہ گزین ہوگئے۔ دن گزرتے گئے، تاریخیں ملتی رہیں، طیارے اآتے رہے اور بے نام و مراد لوٹتے رہے۔ پس پردہ انھیں بیرون ملک نکالنے کی کوششیں جاری رہیں لیکن نوازشریف نے تمام تردباو مستردکردیا۔ آخرکار فاتح کارگل کو عدالت میں حاضر ہونا ہی پڑا۔ انھیں کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور فردجرم عائد کردی گئی۔ عام خیال یہی تھا کہ اب انھیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔ لیکن ہوا یوں کہ نوازشریف نے ایک دفعہ پھر سے تمام دباو مسترد کردیا اور “فاتح کارگل” کی بیرون ملک جانے کی درخواست مسترد کردی گئی۔ پھریوں ہوا کہ جنرل راحیل شریف اور جنرل ظہیرالاسلام دونوں وزیراعظم ہاوس پہنچے۔ اس سے پہلے فوجی دستے وزیراعظم کے دفتر کا گھیراو کرچکے تھے۔ وزیراعظم کے ساتھ اس اچانک ہونے والی ملاقات میں وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان اور ویزراعلیٰ پنجاب شہبازشریف بھی موجود تھے۔ نوازشریف سے ایک ہی مطالبہ تھا کہ “فاتح کارگل” کو علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے دیاجائے کیونکہ فوج کے مورال پر اس بات کا بہت برا اثر پڑرہا ہے۔وزیراعظم نے ایسےکسی بھی مطالبے کو ماننے سے صاف انکارکردیا اور دونوں فوجی احباب ناکام لوٹے

جنرل راحیل شریف اورجنرل ظہیرالاسلام کی اس ناکامی کو فوج کے اندر پائے جانےان جرنیلوں نے سخت ناپسند کیا جن کا خیال تھا کہ ان کے حق حکمرانی اور فوج کے وقار کو پہنچنے والے دھچکوں کو اگر اب نہ روکا گیا تو پھر کبھی نہ روکا جاسکے گا- اس کے علاوہ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ کچھ کرگزرنے کا وقت آن پہنچا ہے کیونکہ ان کے اپنے سابق ہونے کے دن انتہائی تیزی سے قریب آرہے تھے۔ اسی تمام ترپس منظر میں اس کھیل کو رچانے کی داغ بیل ڈالی گئی جسے آنے والے دنوں میں لندن پلان کے نام سے شہرت ملی

پسِ تحریر۔ لندن پلان کے منصوبہ سازوں، مختلف کرداروں اور اس کی منصوبہ بندی کا احاطہ اگلی نشست میں کیا جائے گا

جاری ہے

To Be Continued

MIQ2

About: The Author:

Mudassar Iqbal is an IT Professional serving abroad with a passion for politics and can be reached at @danney707 on Twitter

London Plan – 2

$
0
0

لندن پلان – حصہ دوئم

یہ منظر تھا سماء نیوزکا اور پارس خورشید کے ساتھ ٹیلیفون لائن پر بات کررہے تھے میاں محمودالرشید
میاں محمودالرشید: سپریم کورٹ آرٹیکل 184 کے تحت سوموٹو ایکشن لے گی- آرٹیکل 190 کے تحت وہ آرمی کو حکم جاری کرے گی کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل 118 کے تحت پابند تھا کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے۔
پارس خورشید: لیکن الیکشن کمیشن کو ہٹانے کے لیے آرٹیکل 209 کے تحت حکومت کو ریفرنس داخل کرنا پڑے گا۔
میاں محمودالرشید: جی ۔۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ سب ہوسکتا ہے اور سپریم کورٹ اس کے لیے سب کچھ کرسکتی ہے۔
پارس خورشید: فیصلہ کون کرے گا محمودالرشید صاحب؟
میاں محمودالرشید: سوموٹو سپریم کورٹ لے گی۔وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ حرکت میں آئے گی جب وہ دیکھی گی کہ یہ ملک انارکی کی طرف جارہا ہے-
سماء نیوز کے پروگرام نیوزبیٹ کے 2 اگست 2014 کے پروگرام سے اقتباس
 ***********************************************************************
یہ منظر تھا وزیراعظم ہاوس کا۔ ملکی سیاسی حالات اور دھرنوں کے تناظر میں مسلم لیگ ن کا مشاورتی اجلاس اپنے اختتامی مراحل میں تھا جہاں مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ساتھ کئی ممبران قومی اسمبلی بھی موجود تھے۔ تمام مشاورت مکمل ہونے کے بعد جب اکثر لوگ ایک ایک کرکے جاچکے تو کمرے میں صرف نوازشریف ، شہبازشریف ، چوہدری نثار علی خان اور چند دوسرے ایم این ہی موجود رہ گئے تھے۔ ایسے میں اٹک سے تعلق رکھنے والے ایک ایم این اے نے انتہائی معصومیت کے ساتھ پوچھا کہ  اس سارے کھیل کے پیچھے ہے کون ؟ اس سوال کے بعد جب کمرے میں موجود تمام لوگوں کو خاموش رہے تو نوازشریف نے غور سے انھیں دیکھا، ہلکا سا مسکرائے اور بولے کہ فکر نہ کریں۔ یہ وقت بھی گزرجائے گا۔
    وزیراعظم ہاوس میں مسلم لیگ ن کے 15 جولائی 2014 کو منعقدہ مشاورتی اجلاس کی روداد سے اقتباس
 ***********************************************************************
بہت سے لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ لندن پلان کوئی عالمی سازش تھی جس کا مقصد پاکستان کی تعمیروترقی میں رکاوٹ ڈالنا تھا خصوصأ ایسے وقت میں جب پاکستان اور چین اقتصادی راہداری کے معاملات طے کرنے کے انتہائی قریب پہنچ چکےتھے۔ کچھ لوگ اس تمام سازش کی جڑیں امریکہ کی داعش کے ساتھ جاری جنگ سے بھی جوڑتے ہیں۔ اس خیال کے تحت امریکہ اپنی القاعدہ کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں اپنی اور اتحادیوں کی فوجیں اتارنے والی غلطی دہرانے سے کترا رہا ہے اور اس دفعہ وہ چاہتا ہے کہ داعش کے خلاف کے یہ جنگ مسلم ممالک کی فوجیں ہی لڑیں۔ اسی لیے امریکہ و برطانیہ نے کچھ خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر یہ کھیل رچایا تاکہ پاکستان میں فوجی حکمرانی قائم کی جاسکے اور اسے ماضی کی طرح ایک بار پھر سے اتحادی بنایا جاسکے۔ یہ سوچ کچھ اتنی بے بنیاد بھی نہیں لگتی جب اسی کھیل کے ایک اہم کردارعلامہ طاہر القادری کو برطانوی پاونڈوں کی بھاری امداد بھی ملی ہو۔ حقیقت بحرحال اس کے برعکس ہے۔ لندن پلان مکمل طورپر پاکستان کی اندرونی سیاست کا ہی ایک تاریک باب تھا۔ پاکستانی سیاست میں ایسے کردار وافر پائے جاتے ہیں جو کہ اپنی موقع پرستی، ہوسِ اقتدار اور خوئے غلامی کے زیراثر چند اداروں اور انھی اداروں میں چند اعلیٰ عہدوں پر براجمان شخصیتوں کے ایک اشارے پر تمام حدیں پھلانگنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ لندن پلان پاکستانی سیاست کے اسی تاریک رخ کی سب سے جامع مثال تھی۔ اس سازش میں آپ کو ایسے فوجی افسران بھی نظر آئیں گے جو اپنی ذاتی خواہشات کے تابع قومی آئین اور مفاد کو داو پر لگادیتے ہیں، افسرشاہی کے ایسے اعلیٰ عہدیدار بھی مل جائیں گے جو اپنے اختیارات کے ماخذ آئین پر عمل پیرا ہونے کی بجائے طاقتور کی سنتے ہیں اور جواب میں مستقبل کے انتظامی بندوبست میں اپنے حصے کے متلاشی ہوتے ہیں، ایسے صحافی تو سرعام ملتے ہیں جو کہ اشاروں کی زبان سمجھتے ہوئے دن کو رات اور رات کو دن ثابت کر سکتے ہیں ، اور ایسی سازشوں میں موقع پرستی کی نئی نئی مثالیں قائم کرنے والے سیاستدان تو دراصل ان سازشیوں کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لندن پلان بھی ایک ایسا ہی متنجن تھا جس کے تمام کردار اور منصوبہ سازوں کو تلاش کرنے کے لیے آپ کو کہیں دور نہیں جانا پڑے گا۔
لندن پلان کی سازش  کے تمام ڈانڈے پاکستان کے اندر ہی ملتے ہیں۔ اس کے منصوبہ ساز اور سہولت کار پاکستانی اداروں کے اندر ہی پائے جاتے تھے۔ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے والے سیاستدان اور افسران بھی پاکستان کے اندر ہی موجود تھے، رائی کا پہاڑ بنانے والے ذرائع ابلاغ کے “مجاہد” اینکروصحافی بھی پاکستان کے اندرہی تھے اور سب سے اہم بات یہ کہ اربوں روپوں کے اخراجات اٹھانے والے یا تو پاکستانی تھے یا چندہ دینے والے بیرون ملک مقیم پاکستانی۔ ایسے مواقع سے فائدہ اٹھانے والے غیرملکیوں نے بھی اگرچہ اس میں اپنا حصہ ڈالا لیکن انھیں یہ موقع فراہم کرنے والے بھی دراصل پاکستانی ہی تھے۔ نہ تو اس سازش کی داغ بیل ڈالنے والنے غیرملکی تھے اور نہ ہی اس کے فیصلہ ساز ۔ اس مقصد کے لیے انتہائی مہنگی سرکاری اراضی کو مختلف طریقوں سے “عطیہ” کرنے والے بھی پاکستانی ہی تھے جسے بیچ کر اس سازش کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا، اور زیرِزمین کاروبار سے جمع ہونے والے کالے دھن کا رخ اس سازش کی طرف موڑنے والے اور انھیں اس کا “حکم” دینے والے بھی پاکستانی ہی تھے۔ اس ساری رام کتھا میں صرف علامہ طاہرالقادری ہی ایک ایسا کردار تھے جنھیں ایک پڑوسی ملک سے تھپکی ملی تھی، باقی تمام اداکار اپنے مقامی ہدایتکاروں کے ساتھ ہی نین مٹکوں کے محتاج تھے۔ منصوبہ سازوں کی جانب سے لندن پلان پرعملدرآمد کے لیے لکھا جانے والا سکرپٹ بھی انتہائی جامع تھا۔ اس سکرپٹ کے مطابق سیاسی حکومت کو “دمادم مست قلندر” کے آغاز سے قبل ہی سے دباو میں لینے سے لے کر منصوبے کی کامیابی تک اورکامیابی کے بعد کے مراحل تک کی کئی جہتیں طے کی گئیں تھیں۔ سازش پرعلمدرآمد کی تیاری اتنی سنجیدگی سے کی گئی تھی جیسے کوئی موت سے لڑتا ہوا شخص اپنی زندگی بچانے کے لیے ہرحربہ آزمانے کو تیار ہوجاتا ہے۔
نوازشریف سے ناراض لوگ تو اگرچہ فوج کے اندر بہت سے مل جائیں گے لیکن فیصلوں پراثرانداز ہونے کے حامل عہدوں پر فائز جرنیلوں کی اکثریت ، جس میں جنرل ظہیرالاسلام، جنرل طارق خان، جنرل سلیم نواز ، جنرل خالد ربانی اور جنرل سجادغنی شامل تھے، یکم اکتوبر 2014 کو سابق ہونے جارہی تھی- تمام آثار ظاہر کرتے ہیں کہ لندن پلان کی منصوبہ بندی اور اس کے اہداف کا فیصلہ بھی اسی گروہ نے کیا تھا۔ تاہم اس کھیل کے مختلف مراحل پر فیصلہ سازی کا مکمل اختیار جنرل ظہیرالاسلام کے پاس تھا۔ اپنے سرکاری عہدے کی وجہ سے جنرل ظہیرالاسلام کے لیے ممکن نا تھا کہ وہ اس سارے منصوبے کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال پرخود نظررکھ سکتے، خصوصأ جب وہ اس کھیل کے دوران ہی کسی موقع پر اپنی توسیع کے لیے درخواست آگے بڑھانے کی منصوبہ بندی بھی کررہے تھے۔ اس لیے لندن پلان کی تمام جزئیات طے کرنے اور ان پر نتائج کے حصول تک عملدرآمد کی ذمہ داری انھوں نے اپنے پیشرو اور انتہائی گہرے دوست،  سابق ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا کو سونپی – یہ احمدشجاع پاشا ہی تھے جنہوں نے اپنی افسری کے دنوں میں تحریک انصاف کے تنِ مردہ میں نئی روح پھونکی تھی۔ اس وقت سرکاری عہدے پر رہتے ہوئے سیاست میں دخل اندازی اور میموگیٹ جسیی سازش کی تخلیق نے ان کی ایک اور توسیع حاصل کرنے کی خواہش کا گلا گھونٹ دیا تھا اور ان کا تحریک انصاف کو حکومت میں لانے کا منصوبہ ادھورا رہ گیا- لیکن اب انھیں اپنا ادھورا کام مکمل کرنے کا موقع مل رہا تھا- جنرل احمد شجاع پاشا اس وقت دوبئی کی حکومت کے ساتھ کام کررہے تھے۔ اس سازش کی نگرانی کے لیے انھیں خصوصی درخواست کرکے چھٹی دلوائی گئی تو وہ انتہائی خاموشی کے ساتھ دوبئی سے لاہور آن وارد ہوئے۔
 لندن پلان کی منصوبہ بندی اور اس کی تمام ترجزئیات طے کرنے کے لیے جن نیازمندوں کا انتخاب کیا گیا تھا ان میں بریگیڈئیرریٹائرڈ اعجازشاہ ، بریگیڈئیرریٹائرڈ اسلم گھمن ، سابق چیف الیکشن کمشنر کنوردلشاد اور ڈاکٹر شاہد مسعود شامل تھے۔ ان تمام احباب کا انتخاب ہی واضح کرتا تھا کہ یہ تمام تر سازش انتخابی دھاندلی ، شورش اور ذرائع ابلاغ کے گرد ہی گھومے گی۔ بریگیڈئیر اعجازشاہ ، جنہیں اگر لندن پلان کا چیف آرکٹیکٹ گردانا جائے تو غلط نا ہوگا،  کی سربراہی میں کام کرنے والی اس کمیٹی کے ابتدائی سکرپٹ کے مطابق کہانی کے تانے بانے انتخابی دھاندلی کے گردبنے گئے تھے- تحریک انصاف کو اس دھاندلی کا متاثرہ فریق بنا کر پیش کیا جاتا جسے مختلف مواقعوں پر جماعت اسلامی کی حمایت حاصل ہوتی- لیکن جب یہ منصوبہ جنرل ظہیرالاسلام کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں چند مزید نیازمندوں کی شمعولیت اور ان کے لیے کردار متعین کرنے کی سفارش کی- انھی کی خواہش پر، ان کے لیے ایک دفعہ پہلے بھی دھرنے کی خدمات انجام دینے والے ، علامہ طاہرالقادری اور ان کی ایک اتحادی مسلح تنظیم متحدہ وحدت المسلمین اور مسلم لیگ ق کو سکرپٹ کا حصہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ مختلف جگہوں پر شورش اور بے امنی کی فضا قائم کرنے کے لیے مختلف واقعات کی منصوبہ بندی کا بھی اضافہ بھی کیا گیا۔ جیسے ہی سکرپٹ مکمل ہوا، اس سازش کے منصوبہ سازوں کی جانب سے مسلم لیگ ن میں شامل مخصوص رہنماوں سے رابطوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا جس کا مقصد عین موقع پر ان رہنماوں کی جانب سے حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے اسے کمزور کرنا تھا۔ چوہدری پرویزالٰہی ایسے ناموں کی فہرست جیب میں لیے پھرتے تھے۔ اس سلسلے میں اگرچہ چھبیس مختلف رہنماوں پر کام کا آغاز کیا گیا تھا لیکن فوری کامیابی صرف اس وقت کے گورنر پنجاب چوہدری سرور کی صورت میں ہی حاصل ہوسکی۔ تاہم اس فہرست میں شامل پرانے نیازمندوں کی اکثریت نے مناسب وقت آنے پر ساتھ دینے کا یقین ضرور دلایا۔
پس پردہ انتہائی خاموشی کے ساتھ چلنے والی ان تیاریوں کے نتیجے میں جیسے ہی سکرپٹ مکمل ہوا تو اس کھیل کے تمام اداکاروں کوان کے کردار سمجھانے کے لیے لندن طلب کرلیاگیا۔ جون 2014 کے اولین ہفتے کے دوران اس کھیل کے تمام کردار لندن میں جمع ہوچکے تھے اور اپنے اپنے ٹھکانوں پر اشارے کے منتظر تھے۔ اس سلسلے میں ملاقاتوں کا ایک سلسلہ تو ایجوائر روڈ پر چل رہا تھا جہاں علامہ طاہر القادری  ڈیرے جمائے  بیٹھے تھے۔ یہیں پر مسلم لیگ ق اور ایم کیوایم کے رہنماوں کے ساتھ علامہ طاہرالقادری کی ملاقاتیں کروائی گئیں جن میں علامہ طاہرالقادری کے نگران مقررکیے گئے ٹی وی اینکر مبشرلقمان بھی موجود تھے۔ ایم کیو ایم اگرچہ ابتداء میں اس سکرپٹ کا حصہ نہیں تھی لیکن اس کھیل کی تیاری کی سن گن رکھتے ہوئے اپنے لیے کردار کی متلاشی ضرور تھی۔ یہی تلاش انھیں شیخ الاسلام کے در پہ لے گئی تھی جس کے بعد انھیں اہم موقع پر شمولیت کی یقین دہانی حاصل ہوئی تھی۔ اسی ہفتے کے آخر میں ، پارک لین لندن میں واقع ڈورچیسٹر ہوٹل میں  ، مجوزہ لانگ مارچ اور دھرنوں کے دو بڑے کرداروں عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کی ملاقات کروائی گئی۔ تین گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں ڈاکٹرشاہد مسعود اور مبشرلقمان بھی موجود تھے۔ ان تمام ملاقاتوں کے بیچوں بیچ لندن کے ہی ایک ڈیزائنر کیفے میں چوہدری سرور کی سربراہی میں ایک اور کمیٹی ایسے لوگوں کی فہرست مرتب کرنے میں مصروف تھی جن کا “انقلاب اور تبدیلی” کے فوری بعد احتساب ہونا تھا۔ یہ تمام ملاقاتیں جنرل احمد شجاع پاشا کی نگرانی میں ہورہی تھیں۔ جس کا ایک اہم کردار ایک ریٹائرڈ بریگیڈئیر تھا۔ بریگیڈئیر صاحب کا ذکر تو بہت سے مواقع پرہوتا رہا لیکن لیکن ان کا کردار نہایت اہم تھا جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔
سکرپٹ کے مطابق منصوبہ تھا کیا ؟ سکرپٹ کے مطابق منصوبہ کئی مراحل ہر مشتمل تھا۔ ذرائع ابلاغ کے انتہائی جانبدار اور جارحانہ رویے کے زیرِاثر چودہ اگست سے پہلے ہی تبدیلی کا بگل بج چکا ہوتا۔ چودہ اگست کے دن جب دونوں “قائدین” اپنے اپنے ٹھکانوں سے نمودار ہوتے تو تبدیلی اور انقلاب کی متلاشی “عوام” ان کی طرف دوڑتی چلی آتی۔ کم از کم دو لاکھ لوگوں پر مشتمل قافلہ جنون کے گھوڑے پر سوار لاہور سے نکلتا۔ ذرائع ابلاغ کے زور پر یہ مجمع پاکستانی تاریخ کا عظیم ترین اور تاریخ سازجلوس قرار پاتا جس میں شرکاء کی تعداد کم سے کم “دس لاکھ” قرار پاتی۔ دوسری طرف ایوانِ وزیراعظم میں بیٹھے نوازشریف اس موقع پر اہم ریاستی ادارے کے رحم و کرم پر منتقل ہو کر رہ جاتے۔ اس نازک موقع پر فوج کی حمایت جیتنے کےلیے سب سے پہلے وہ جنرل ظہیرالاسلام کی مدت ملازمت میں توسیع کی اس فائل پر دستخط کرتے جو ان کے میز پر بہت پہلے پہنچائی جاچکی ہوتی۔ لاکھوں کے اس مجمع کی تاب نہ لاتے ہوئے کئی اراکین اسمبلی ، جن کے ساتھ رابطے پہلے استوار کیے جاچکے تھے،  کا ضمیر جاگنا شروع ہوجاتا اور وہ ایک ایک کرکے نوازشریف کی کشتی سے چھلانگ لگانا شروع کردیتے۔ مسلسل اسلام آباد کی طرف بڑھتا یہ قافلہ اپنے حجم میں بھی پھیلتا جاتا۔ نوازشریف اس دوران استعفیٰ دے کر گھر کی راہ لے لیتے تو ٹھیک ورنہ تمام تر رکاوٹیں توڑتا ہوا یہ قافلہ اسلام آباد میں یوں داخل ہوتا کہ دارلخلافہ اور اس کے اندر موجود حساس ترین علاقے ریڈزون کے اردگرد حفاظتی حصار پانی کی طرح بہہ جاتا۔ ریاستی اداروں کے عدم تعاون کے بعد نوازشریف ایوانِ وزیراعظم میں صرف قیدی بن کے رہ چکے ہوتے۔ بپھرہ ہوا یہ مجمع ریاستی قابو سے باہر ہوجاتا اور تمام اہم ریاستی عمارتوں پر قابض ہوجاتا۔ سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن لیتی یا کوئی ریاستی ادارہ درخواست لے کر وہاں پہنچتا۔ عدالت کے سامنے مظاہرین اپنا موقف رکھتے کہ انتخابات میں ان کا مینڈیٹ چوری ہوا جس کا ثبوت بریگیڈئیر صاحب کا بیان حلفی ہوتا- بیان حلفی میں بریگیڈئیر صاحب بذاتِ خود دھاندلی میں ملوث ہونے کا اعتراف کرتے۔ عدالت مظاہرین کا موقف تسلیم کرتی اور اس کا حکم ایک ہی ہوتاکہ فوج معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر اس بحران کا حل نکالے۔  فوج کسی قتل عام کا خطرہ مول نہ لیتے ہوئے ان مظاہرین سے مذاکرات کرتی اور کچھ مطالبات کوتسلیم کرتے ہوئے دارلخلافہ خالی کروالیتی۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں ملک کے اندر تین ماہ کے لیے ماہرین پر مشتمل ایک حکومت تشکیل پاتی جس میں ان تمام اداکاروں کو حصہ بقدر جُثہ ملتا- یہی عبوری حکومت  بدعنوان لوگوں کا احتساب کرنے اور نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کا علاج کرنے کے لیے تین سال کی توسیع پاتی- تین سال کے اس تطہیری عمل کےذریعے موجودہ پارلیمان کی اکثریت نااہل اور سزاوں کی حق دار قرارپاتی، مسلم لیگ کی حکومت گرانے اور ملک میں تبدیلی کی راہ ہموار کرنے کے نتیجے میں عمران خان کی مقبولیت نہ صرف آسمان کی بلندیوں کو چھورہی ہوتی بلکہ تمام تر ریاستی طاقت ان کی پشت پر ہوتی۔ انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف فاتح قرارپاتی اور عمران خان پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوجاتے اور ریاستی اداروں کے ساتھ نیازمندی کے نئے ریکارڈ قائم کرتے۔
 لیکن جیسا کہ کہتے ہیں کہ کبھی بھی سب کچھ منصوبے کے مطابق نہیں ہوتا۔ ایسا ہی کچھ لندن پلان کے ساتھ ہوا۔
 ***********************************************************************
یہ یہ منظر تھا زمان پارک کا۔ عمران خان اپنے چند انتہائی قریبی ساتھیوں کے ساتھ اپنے ہمنواء ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کررہے تھے۔ اسی ملاقات میں “عشقِ عمرانی” کے شکار ایک کالم نگار عامر خاکوانی نے سوال پوچھ لیا کہ انھیں کتنے فیصد یقین ہے کہ نوازشریف استعفیٰ دے دیں گے؟ جواب میں “کپتان” بولے کہ گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے ہی استعفیٰ آچکا ہوگا۔پھرمزید اضافہ کرتے ہوئے بولے کہ میرے خیال میں تو ہم لاہور سے بھی نہیں نکلے ہونگے اور استعفیٰ آجائے گا۔ اسی محفل میں موجود، لندن پلان کے چیف آرکٹیکٹ، بریگیڈئیر اعجازشاہ گویا ہوئے کہ ہمیں اسعتفے کے بارے میں اس قدر خوش گمان نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ اس سے پہلے بھی جرنیل نوازشریف کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر استعفے کا مطالبہ کرچکے ہیں لیکن ناکام رہے۔ جواب میں “کپتان” نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھایا، درمیان کی تین انگلیاں کھڑی کرتے ہوئے بولے ” تین دنوں میں سب ہوجائے گا، صرف تین دنوں میں”۔
 ***********************************************************************
 پس تحریر: لندن پلان کے حالات و واقعات کا احاطہ اگلی چند نشستوں میں کیا جائے گا

جاری ہے

To Be Continued

MIQ2

About: The Author:

Mudassar Iqbal is an IT Professional serving abroad with a passion for politics and can be reached at @danney707 on Twitter

 


London Plan – 3

$
0
0

لندن پلان – حصہ سوئم

یہ منظر تھا آج نیوز کا اور طلعت حسین کے مہمان تھے عمران خان

طلعت حسین : آپ [ دھرنے میں ] بیٹھے ہوئے ہیں اور حکومت کہتی ہے کہ ہم نے نہیں جانا ۔ اس صورت میں آپ کا کیا لائحہ عمل ہوگا ؟ کیونکہ بحثیت قائد آپ کو آگے کی منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے نا۔ آپ کیا کریں گے ؟

عمران خان : طلعت ۔۔۔۔۔ آپ حیران ہوں گے کہ ہمارا ہرگھنٹے کا لائحہ عمل طے ہے۔ ہم آئیں گے اور کیا کریں گے۔ بیٹھیں گے اور کتنی دیر بیٹھیں گے۔ ہرچیز طے ہے

آج نیوز کے پروگرام لائیور وِ طلعت کے 8 اگست 2014 کی قسط سے اقتباس

***********************************************************************

یہ منظر تھا مدینہ منورہ میں واقع ایک بین الاقوامی پنج ستارہ ہوٹل کا ۔

سفید رنگ کےستونوں کی قطاروں ، جن کی خوبصورتی میں طلائی رنگ کے ڈیزائن چارچاند لگادیتے ہیں ،کے پیچھے واقع سفید ہی رنگ کی عمارت والے اس ہوٹل کی شاخیں دنیا کے اکثر ملکوں میں پائی جاتی ہیں تاہم اس ہوٹل کا ماخذ سوئٹزرلینڈ کو گردانا جاتا ہے۔ اس سہ پہر ہوٹل کےسامنے سیاہ رنگ کی حفاظتی کاروں کی معیت میں سفید رنگ کی بھاری بھر کم کار بھی آکر رُکی- سفید رنگ کی اس مرسڈیز جی ایل سے ایک عرب شخصیت برآمد ہوئی اور ہوٹل کے داخلی دروازے کی طرف چل دی۔ سعودی شاہی خاندان میں صفِ اول کا مقام رکھنے والی اس شخصیت کا پسِ منظر سب سے اہم تھا۔ ایک وقت میں وہ سعودی خفیہ ایجنسی کا سربراہ تھا۔ تاہم اس ہوٹل میں وہ اس وقت مہمان تھے۔ رمضان کے آخری عشرے اور سخت گرمی کی وجہ سے نڈھال اس شخصیت کے میزبان پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف تھے جن کی پشت پر ان کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار بھی اپنے عرب مہمان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ نوازشریف اور اسحاق ڈار کی اپنے اس عرب مہمان سے گذشتہ چند دنوں میں ہونے والی یہ تیسری ملاقات تھی۔ اگر جدہ ائیرپورٹ پر نوازشریف کی آمد اور سعودی شاہ عبداللہ کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں بھی اس مہمان کی موجودگی کو شامل کرلیاجائے تو یہ پانچویں ملاقات بنتی ہے۔ جدہ آمد کے فوری بعد ، ائیرپورٹ کے لاونج میں ہونے والی ملاقات میں ہی نوازشریف نے اپنے اس عرب مہمان سےچند معاملات کی تحقیقات میں تعاون کی درخواست کی تھی۔ نوازشریف گذشتہ جون کے مہینے کے دوران، برطانیہ کے شہر لندن میں ، ہونے والی ملاقاتوں اوراس کے شرکاء کے بارے میں تصدیق کرنا چاہتے تھے۔ اگلے چند گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں اگرچہ کئی موضوع زیربحث آئے تاہم تمام تر کہانی کا مرکزی نقطہ لندن میں ہونے والی ملاقاتیں اور ان کے شرکاء کی سرگرمیاں تھیں۔

نوازشریف کے 2014 کے دورہ سعودی عرب میں ہونے والی ایک ملاقات کی روداد سے اقتباس

***********************************************************************

یہ منظر تھا سماء نیوز کا اور سماء نیوز کی وین میں سوار ہوئے تھے شیخ رشید

صحافی: شیخ صاحب ۔۔۔۔۔ خان صاحب نے آپ کو گاڑی سے کیوں اتار دیا؟

شیخ رشید: اسپغول ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نا بول۔

سماء نیوز کے ساتھ شیخ رشید کی 15 اگست 2014 کے دن گفتگو

***********************************************************************

لندن پلان کا معاملہ عجیب کچھ اس طرح بھی تھا کہ اس سازش کے اڑان بھرنے سے پہلے ہی اس کے پر کُترے جا چکے تھے۔

ماڈل ٹاون کے افسوسناک اور مشکوک واقعہ کے بعد حکومت مزید کوئی غلطی دہرانے پر آمادہ نہیں تھی۔ ماڈل ٹاون کا واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا تھا جب حکومت کی جانب سے ضرب عضب کا اعلان کردیا گیا تھا اور ایک عام تاثر یہی تھا کہ اس کے بعد اب لانگ مارچ اور دھرنا گروپ کو دینے کے لیے شاید فوج کے پاس وقت نہ ہو۔ تاہم ماڈل ٹاون کے واقعہ نے اس تمام کھیل میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ماڈل ٹاون کا واقعہ جتنا افسوس ناک تھا اتنا ہی مشکوک بھی۔ عابد شیر علی حلفأ بتاتے ہیں کہ جس وقت نوازشریف ، قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر ضرب عضب کے آغاز کا اعلان کررہے تھے، اسی دوران عمران خان اور شیخ رشید کچھ سرگوشیوں میں مصروف تھے جن کے اختتام پر عمران خان جذبات قابو میں نہ رکھ سکے اور غصے سے بولے “اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے یہ کردیا ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں”۔ اس کے چند ہی دنوں بعد ماڈل ٹاون کا واقعہ رونما ہوگیا۔ سیاست کی تھوڑی بہت سمجھ رکھنے والا شخص بھی بخوبی جانتا ہے کہ کسی بھی سیاسی حکمران کے لیے ایسا کوئی حکم دینا اپنی سیاسی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہ بات ماڈل ٹاون کے واقعے کی رونمائی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے بعد بھی جس انداز میں ہر”مطلوب” شخص کا نام اس کے ذمہ داران کی فہرست میں شامل کیا گیا، وہ بھی اس واقعے کے محرکات کے بارے میں کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ نوازشریف پہلے دن سے ہی اس واقعے کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس واقعے کی ہونے والی عدالتی تحقیق کے بعد لکھی جانے والی رپورٹ اور اس کے ایک “مجاہد” اینکروصحافی کامران شاہد کے ہاتھوں آشکار ہونے میں کوئی خفیہ مددکارفرما تھی۔ محرکات چاہےکچھ بھی رہے ہوں، اس وقت اور ان حالات میں ماڈل ٹاون میں کی جانے والی یہ کاروائی حکومت کی ایک فاش غلطی تھی جو اسےانتہائی دفاعی پوزیشن پر لے گئی تھی۔

نوازشریف اپنے ساتھ ،”رمبا سمبا” ناچنے والوں کی، ان تیاریوں سے جون سے بھی پہلے ہی واقف ہوچکے تھے۔ ایوانِ وزیراعظم بیٹھے میں ہوئے انھیں لندن میں ہونے والی تمام ملاقاتوں کے بارے میں خبریں مسلسل مل رہی تھیں۔ اپنے پاس آنے والی ان تمام خبروں کی تصدیق وہ اپنے دوستانہ “ذرائع” سے بھی کرچکے تھے۔ جب تمام صورتحال ان کے سامنے آچکی تو انھوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے دوٹوک بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں شہبازشریف اور چوہدری نثار نے آرمی ہاوس راولپنڈی میں جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی اورتمام صورتحال بمع ثبوتوں کے ان کے سامنے رکھ دی۔ ان ثبوتوں میں ریکارڈ شدہ وہ ٹیپ بھی شامل تھی جو کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی کی جانب سے ریکارڈ کی گئی فون کالز پر مبنی تھی- یہ ٹیپ افغان حکومت نے ان دنوں افغانستان کے دورے پر موجود محمودخان اچکزئی کے حوالے کی تھی۔ اس ٹیپ میں جن لوگوں کی آوازیں شامل تھیں ان کا تعلق آئی ایس آئی اور تحریک انصاف سے ہے ۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ریکارڈشدہ آوازوں کے درمیان موضوعِ سُخن یہی سازش تھی۔ 13 اگست 2014 کے روز ہونے والی ملاقات میں جنرل راحیل شریف نے اپنے طور پر نہ صرف اس قصے کی تحقیقات کا وعدہ کیا بلکہ یہ بھی یقین دہانی کروائی کہ اس تمام سازش سے نہ تو ان کا کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ حکومت کا تختہ الٹنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں جب جنرل راحیل شریف نے جنرل ظہیرالاسلام سے اس بارے میں بات کی تو جنرل ظہیرالاسلام نے اپنے اور اپنے ادارے کے چند لوگوں کے اس کردار کا اعتراف کرلیا۔ جنرل راحیل شریف نے انھیں حکم دیا کہ وہ وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں ان کے تحفظات دور کریں۔ کچھ دنوں بعد جب جنرل ظہیرالاسلام، وزیراعظم سے ملے توانھوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں تو اس کھیل سے لاتعلقی کا اظہار کیا لیکن اپنے چند افسران کی شمولیت پر پردہ ڈالنے میں ناکام رہے۔ وزیراعظم نے انھیں معاملات درست کرنے کا حکم دیا لیکن اس وقت تک ان کے “مہمان” اسلام آباد میں ڈیرے ڈال چکے تھے اور وہ خود بھی اس کھیل سے اپنی مرضی کے نتائج برآمد کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے وزیراعظم کے احکامات کی پرواہ نہ کی اور اپنے اشاروں پر ناچتی کٹھ پتلوں کو شہہ دینے میں مصروف رہے۔

لندن پلان کے دونوں اہم ترین اداکار جانتے تھے کہ کامیابی کی صورت میں زیادہ حصہ اسے ہی ملے گا جس کے سر نوازشریف کو گھر بھیجنے کا سہرا سجے گا۔ بیرونی حمایت کے زیرسایہ علامہ طاہرالقادری، لندن پلان کے سکرپٹ سے دوقدم آگے بڑھتے ہوئے اپنی طرف سے بھی ایک سازش تیار کیے بیٹھے تھے- اس سازش کے تحت انھوں نے اسلام آباد خود ہی فتح کرنے کی ٹھان لی ۔ موصوف نے پاکستان آمد کے وقت ، اپنے تمام مریدین کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کی۔ منصوبے کے مطابق وہ جیسے ہی اسلام آباد ائرپورٹ سے باہر نکلتے، اپنے ہزاروں مریدین کی معیت میں قومی اسمبلی اور وزیراعظم ہاوس کی جانب مارچ کا اعلان کردیتے۔ یہ مجمع تمام رکاوٹوں کو توڑتا ہوا ریڈزون میں داخل ہوتا اور پہلے سے تیارشدہ منصوبے کے مطابق ہی ریڈزون کے حفاظتی بندوبست کو بے بس کرتے ہوئے قومی اسمبلی ، وزیراعظم ہاوس اور ایوان صدر پرقابض ہوجاتا۔ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد ہونے والے مذاکرات کی کامیابی کے نتیجے میں جناب اپنے لیے قائدانقلاب کا عہدہ پسند فرماتے اور اپنے معتمدِ خاص ائیرمارشل ریٹائرڈ شاہد لطیف کو وزیراعظم مقررکرتے۔ اس کچی پکی کھچڑی کی خوشبو بھی حکومتی ایوانوں تک پہنچ چکی تھی۔ جتنا بھونڈا اور کچا یہ منصوبہ تھا، اس سے بھی کہیں زیادہ آسان حل ، حکومت نے اس کے لیے نکالا۔ حکومت نے علامہ طاہرالقادری کو لانے والی اماراتی پرواز کا رخ ہی اسلام آباد کی بجائے لاہور کی طرف موڑ دیا ۔ علامہ صاحب اور ان کے ساتھ آنے والے ساتھیوں نے تماشا تو خوب لگایا لیکن لندن پلان کے ہی ایک اور کردار، اس وقت کے گورنر پنجاب، چوہدری سرور کے ساتھ ہونے مذاکرات کے نتیجے میں بالآخر علامہ صاحب اسلام آباد فتح کیے بغیر ہی ماڈل ٹاون چلتے بنے۔

لندن پلان پر علمدارآمد کا وقت آیا تو انتخابی دھاندلی کے نام پر عمران خان اور ماڈل ٹاون کے واقعہ کے نام پرعلامہ طاہرالقادی اپنے اپنے مطالبات سامنے لے آئے جن میں سرِفہرست حکومت کا خاتمہ تھا۔ دونوں ہی حکومت کے خاتمے کے بارے میں انتہائی پُریقین تھے۔ حتیٰ کہ علامہ طاہرالقادری تو اگست کے خاتمے سے قبل ہی حکومت کے خاتمے کی نوید سنا رہے تھے۔ اسی ٹولے میں شامل شیخ رشید اپنی سیاسی “بصیرت” کے بل بوتے پر “قربانی سے قبل قربانی” جیسی خبریں دینے میں مصروف تھے۔ ایک طرف عمران خان اور شیخ رشید تھے تو دوسری طرف علامہ طاہرالقادری متحدہ وحدت المسلمین اور گجرات کے چوہدریوں کا ٹولہ تھا۔ ایک طرف اس سازش کی پیچ دور پیچ کھلتی تہوں پر گہری نظر رکھنے والے لندن میں ہونے والی ملاقاتوں سے مکمل باخبر تھے تو دوسری طرف اس سازش کے تمام اداکار ان ملاقاتوں سے انکاری تھے۔ اسی بیچ شیخ رشید اور گجرات کے چوہدری ، دونوں “انقلابیوں” کے یکجا ہونے کے لیے فضا بنانے کے لیے بیان بازیوں میں مصروف تھے۔ باخبر لوگ جانتے تھے کہ یہ تمام ٹولہ آخرکار یکجا ہوجائے گا لیکن عمران خان اور طاہرالقادری ایسے کسی امکان کو رد کررہے تھے۔

نوازحکومت پر حملے کی تیاریوں کے لیے عمران خان ہر دوسرے ہفتے مختلف شہروں میں جلسے کرتے پھررہے تھے اور عوام کو اپنے ساتھ آنے کی دعوت دینے میں مصروف تھے۔ انھی جلسوں کے دوران کبھی وہ دس لاکھ لوگوں کو اکٹھا کرنے کا دعویٰ کررہے تھے تو کبھی ایک لاکھ موٹر سائیکل سواروں کا ۔ان جلسوں کے علاوہ ان کی مختلف لوگوں ، خصوصا صحافیوں اور “فرشتوں” ، کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ اسی سلسلے میں منعقدہ دوملاقاتوں کے دوران “فرشتوں” کی جانب سے انھیں آگاہ کیا گیا تھا کہ اپنے لانگ مارچ میں انھیں لوگوں کی بڑی تعداد میں آمد کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ اس لیے بہتر ہے کہ وہ لاہور سے ہی علامہ طاہرالقادری کے ساتھ مل کر نکلیں۔ لیکن اپنی مقبولیت کے زعم میں مبتلا “کپتان” نے اس مشورے کو نظرانداز کردیا اور اپنے لانگ مارچ کے نکلنے کی ضمانت ہی چاہی۔ عمران خان کا خیال تھا کہ ایک دفعہ وہ لاہور کی سڑکوں پر نکل کھڑے ہوں گے تو لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کے گرداکٹھی ہوجائے گی جس کے بعد ان کا رستہ روکنا ناممکن ہوجائے گا۔

اگرچہ عمران و قادی ، اپنے احتجاجوں کو علیٰحدہ علیٰحدہ رکھنے پر اصرار کررہے تھے لیکن اسی دوران علامہ طاہرالقادری نے بھی اپنے لانگ مارچ کے لیے 14 اگست کا ہی انتخاب کیا۔

اس تمام صورتحال سے نمٹنے کے لیے نوازشریف کوئی بھی فیصلہ تن تنہا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ اپنے سیاسی اتحادیوں اور پارلیمان میں موجود میں تمام جماعتوں سے مسلسل رابطے میں تھے۔ حکومت اگرچہ گومگو کی کیفیت کے اشارے دے رہی تھی لیکن فیصلے کرنے سے پہلے اپنے اتحادیوں سے مشورے کررہی تھی۔ نوازشریف کے لیے یہ فیصلہ آسان نہیں تھا۔ کیونکہ ان کی اپنی جماعت کے اندر، خصوصأ چوہدری نثار علی خان اور خواجہ سعد رفیق جیسے لوگ اس احتجاج کو سختی کے ساتھ کچل دینے کے حامی تھے۔ جبکہ ان کےاتحادیوں میں صرف مولانا فضل الرحمان اس مشورے کے حامی تھی۔ دوسرے جمہوری اور حکومتی اتحادیوں ، جس میں پیپلزپارٹی، محمود اچکزئی اور میرحاصل بزنجو جیسے لوگ اور ان کی جماعتیں شامل تھیں، کا مشورہ تھا کہ اس کھیل کے مکمل طور پر آشکار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ احتجاجیوں کا رستہ نہ روکا جائے۔ یہ مبہم دکھائی دینے والی صورتحال مگر جنرل ظہیرالاسلام کی طبیعیت پر خاصی ناگوار گزررہی تھی ۔ کیونکہ اگر ان کی موجودگی میں اس مہم کو سختی سے کچل دیا جاتا تو نہ صرف ان کی توسیع کا معاملہ کھٹائی میں پڑجاتا بلکہ بشمول ان کے، اس سازش کے منصوبے سازوں کے سابق ہونے کے بعد اس کہانی کا دہرایا جانا بھی خام خیالی ہی ثابت ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ موصوف نے ایک طرف تو چوہدری سرور اور ایم کیو ایم کو متحرک کیا تاکہ وہ طاہرالقادری کےضامن بن کر انھیں لانگ مارچ اور دھرنے کی اجازت دلواسکیں اور دوسری طرف سراج الحق کو متحرک کیا تاکہ وہ عمران خان کے حق میں یہی کردار نبھا سکیں۔ ان “ضامنوں” نے حکومت اور اس کے اتحادیوں میں شامل مختلف لوگوں سے بات چیت کی اور بالآخر چودہ اگست کے دن ہی عمران خان اور طاہرالقادری کو لانگ مارچ کی اجازت دے دی گئی۔

چودہ اگست سے قبل ہی جنرل ظہیرالاسلام کی توسیع کی سمری نوازشریف کی میز پر موجود تھی جبکہ اسی دوران نوازشریف قوم سے اپنے خطاب میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی پیشکش کرچکے تھے۔ اس کے ساتھ ہی لاہور ہائیکورٹ اس لانگ مارچ اور دھرنے کو غیرقانونی قرار دے چکی تھی۔

ملکی تاریخ کا دھارا بدل دینے والا یہ کارواں جب زمان پارک اور ماڈل ٹاون سے نکلا تو ابتداء میں ہی اپنے منصوبہ سازوں کو مایوس کرگیا۔ اس لانگ مارچ میں نہ تو دس لاکھ لوگ تھے اور نہ ہی ایک لاکھ موٹرسائیکل سوار۔ عمران خان جب زمان پارک سے نکلے تو ان کے ساتھ صرف اسی گاڑیوں کا قافلہ تھا جن میں پولیس کے حفاظتی دستوں کے علاوہ اکثر کا تعلق خیبرپختونخواہ کی حکومت اور ممبران قومی اسمبلی سے تھا – علامہ طاہرالقادی کے ساتھ سات سے آٹھ ہزار لوگوں کا جلوس تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ لاہور کے باسیوں نے ان “مسیحاوں” کے ساتھ انتہا درجے کی بے رخی روا رکھی- لوگوں کی کم شمولیت کے باوجود بھی ان جلوسوں کی رفتار انتہائی سست رکھی گئی۔ کئی گھنٹوں تک لاہور کی سڑکیں ناپنے کے باوجود بھی جب لوگوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نا ہوا تو مسلسل کئی دنوں تک اس لانگ مارچ سے حکومت کو ڈرانے والے تجزیہ کار بھی بول پڑے کہ پہلا مرحلہ حکومت کے نام رہا ہے۔ لیکن کنٹینر کے اندر سوار کپتان کی پریشانی کی وجہ کچھ اوربھی تھی۔ کپتان کو امید تھی کہ لاہور کی سڑکوں پر نکلنے کے کچھ ہی دیر بعد اسے جی ایچ کیو سے فون آئے گا اورمعاملات طے کرنے کی دعوت دی جائے گی۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا تھا، ایسے کسی رابطے کے بارے میں کپتان کی امیدوں پر پانی پھرتا جارہا تھا۔ لاہور کے اندر ہی کئی گھنٹوں تک گھومنے کے بعد بالاخر رات کے پچھلے پہر دریائے راوی کا پُل عبور کرنے کا ہمت کی گئی۔ اس وقت تبدیلی لانے والے اس قافلے میں صرف تین ہزار لوگ شامل تھے جبکہ انقلاب نافذ کرنے والا قافلہ اپنے آٹھ ہزار “سپاہیوں” کی معیت میں کئی گھنٹے پہلے ہی راوی کے پار جا چکا تھا۔

جہاں علامہ طاہرالقادری کا جلوس جی ٹی روڈ پر زیادہ دیر تک رکنے کی بجائے اسلام آباد کی طرف جانے میں ہی عافیت محسوس کررہا تھا وہیں عمران خان کا آزادی مارچ آگے بڑھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ انتہائی سُست رفتاری کے بعد جب یہ قافلہ گوجرانوالہ پہنچا تو وہیں ڈیرے ڈال کر بیٹھ گیا۔ “کپتان” اپنے ساتھیوں پر شدید برہم تھا جو کہ مطلوبہ تعداد میں لوگ لانے میں ناکام رہے تھے۔ گوجرانوالہ میں کیے جانے والے دس گھنٹے لمبے قیام کے دوران ہی جب انھیں ناشتے کی پیشکش کی گئی تو کپتان شدید غصے کے عالم بولے ” مجھے ناشتہ نہیں لوگ چاہئیں”۔ بالآخر ساتھیوں نے بہلاوہ دیا کہ دیکھیں لوگ آپ کو دیکھنے آئے ہیں، آپ کو ان لوگوں سے خطاب کرنا چاہئیے۔ تحریک انصاف کے سٹیج سیکرٹری کی ذمہ داریاں نبھانے والے فیصل جاوید خان نے کنٹینر کی چھت سوار ہو کر نعرہ لگایا “کون بچائے گا پاکستان؟”۔ اردگرد کھڑی عوام کا جواب آیا “وزیراعظم نوازشریف”۔ گوجرانوالہ کے باسی اور مسلم لیگ ن کے کارکنان ، جو کہ تحریک انصاف اور خصوصأ عمران خان کی بدزبانیوں کے سبب شدید غصے میں تھے ، کا صبر بالآخر جواب دے گیا اور انھوں نے “لاکھوں” کے اس آزادی مارچ کو پتھروں اور جوتوں کی بارش میں گوجرانوالہ سے نکال باہر کیا جبکہ تمام رکاوٹیں توڑنے کے بعد پاکستانی تاریخ کا دھارا بدل دینے کے دعوے کرنے والا یہ کارواں الیکٹرانک اورسوشل میڈیا پر رودھو کر اپنی مظلومیت ثابت کرنے میں مصروف تھا۔ گوجرانوالہ کے باسیوں کی جانب سے اس “شاہی” سلوک کے بعد کپتان نے دوبارہ گکھڑ میں ڈیرے ڈالنے کی کوشش کی تاکہ خیبر پختونخواہ سے آنے والی “کُمک” ان کے اس یتیم و مسکین جلوس کا حجم کچھ بڑھا سکے لیکن گکھڑ کے شہریوں نے چند گھںٹے بھی انتظار نہ کیا اور گوجرانوالہ جیسی ہی مہمان نوازی کا آغاز کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کپتان کی ہمت جواب دے گئی۔ موصوف کنٹینر سے اترے اور بلٹ پروف گاڑی میں سوار ہوگئے۔ تمام لوگوں کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کی اور لانگ مارچ پر چارحرف بھیجتے ہوئے اسلام آباد کی طرف دوڑ لگادی اوراسلام آباد پہنچنے سے پہلے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔

واضح طور پر لندن پلان کی سازش کا پلان اے ناکام ہوچکا تھا۔ لندن پلان کے سکرپٹ کے مطابق، اس لانگ مارچ کو اپنے ابتدائی اہداف ، اولین چوبیس گھںٹوں کے اندر ہی حاصل کرنے تھے لیکن یہاں تو کسی ایک ہدف کے حاصل ہونے کے بھی دور دور تک امکانات دکھائی نا دیتے تھے۔ نہ تو جی ایچ کیو سے فون آیا اور نہ ہی جنرل ظہیرالاسلام کو توسیع کے بارے میں کوئی حوصلہ افزاء خبر ملی تھی۔ نہ تو پرانے “نیازمند” نوازشریف کی کشتی سے چھلانگ لگا رہے تھے اور نہ ہی ان جلوسوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا تھا۔ الٹا گوجرانوالہ اور گکھڑ میں ہونے والی خاطر مدارت اورمسلسل طول کھیچنتے سفر کی کوفت جان کو آگئی تھی۔ اسلام آباد میں داخلے کے وقت تک مارچیوں کے کیمپ کے اندر بھی ناچاقیاں جنم لے چکی تھیں۔ گوجرخان میں ہی عمران خان ، “مخبرِخاص” شیخ رشید کو اپنی گاڑی سے بے دخل کرچکے تھے جنہوں نے باقی ماندہ سفر سماء نیوز کی وین میں طے کیا۔ جس جلوس کو لاہور سے نکلنے سے پہلے ہی کامران ٹھہرنا تھا وہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اسلام آباد داخل ہوا تو خیبر پختونخواہ سے آنے والی “کُمک” کے باوجود بھی اس کا حُجم سترہ ہزار سے آگے نہ بڑھ سکا تھا۔ تاہم مختلف علاقوں سے اپنے مریدین کے آ ملنے کے بعد علامہ طاہرالقادری کے جلوس کا حجم اکیس ہزار تک پہنچ چکا تھا۔ لیکن سرکاری ٹی وی پر بیٹھی خاتونِ اول بننے کی خواہشمند ایک خاتون ٹویٹر پر اس جلوس کا حجم دولاکھ بتارہی تھیں۔

***********************************************************************

یہ منظر تھا وزارتِ داخلہ کا اوراپنی پریس کانفرنس کے بعد سوالوں کا جواب دے رہے تھے وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان۔

” ہمارے پاس جواطلاعات ہیں وہ یہی ہیں کہ پی ٹی آئی کی ریلی کل صبح اسلام آباد پہنچے گی کیونکہ اس وقت تک وہ لاہور گھوم رہے ہیں۔ مجھے تو گھومنے پھرنے سے تھوڑا یہ شک بھی پڑا کہ لانگ اسلام آباد میں نہیں بلکہ لاہور میں ہورہا ہے۔ پچھلے چارپانچ گھںٹوں سے تو بارات پورے لاہور میں پھررہی ہے۔”

سوال: اسلام آباد میں دھرنے کے سلسلے میں آپ نے کیا انتظامات کیے ہیں ؟

چوہدری نثارعلی خان: ہم نے دس لاکھ لوگوں کے لیے انتطام کیا ہے- [ تمام صحافی ہنسنا شروع ہوگئے]- آپ لوگ ہنس رہے ہیں۔ میں نے کوئی غلط بات تو نہیں کی۔ انھوں نے ملین مارچ کا ہی کہا تھا۔

وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی کی 14 اگست 2014 کی شام کی گئی پریس کانفرنس سے اقتباس

***********************************************************************

پسِ تحریر: اس ساری کشمکش سے تھوڑی ہی دور لندن پلان کے منصوبہ ساز سرجوڑے بیٹھے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ پلان اے کی ناکامی کے بعد اب ایک نئے پلان کی ضرورت ہے۔ وہ پلان کیا تھا اور اس کا انجام کیا ہوا؟ اس کا احاطہ اگلی نشست میں کیا جائے گا

جاری ہے

To Be Continued

MIQ2

About: The Author:

Mudassar Iqbal is an IT Professional serving abroad with a passion for politics and can be reached at @danney707 on Twitter

 

Lasoori Shah

$
0
0

لسُوڑی شاہ

جی حسن نثار صاحب گھر پہ ہیں؟

جی آپ کون؟

انہیں بتائیے گا کہ جمیل انکا لسُوڑی شاہ والا ہمسایہ

جی تشریف لے آئیں، آپ ڈرائنگ روم میں بیٹھیں وہ ابھی آرہے ہیں
شکریہ

آِئیے آئیے جمیل صاحب کیا حال چال ہیں؟

بس جی شکریہ حسن صاحب آپ سنائیں

بالکل ٹھیک اور بزرگوں کی سنائیں؟

الحمدللہ جی بس تھوڑے بڑھاپے سے متعلق مسائل ہیں لیکن ماشاءاللہ بالکل بہترین

اورسنائیں کیسے آنا ہوا؟

بس جی برخودار کی شادی تھی میں نے کہا خود ہی کارڈ دے آوں

بڑی بڑی مہربانی جناب کب ہورہی ہے پھر؟

بس جی عید کے فورا بعد کا پروگرام ہے باقی کارڈ پہ پورا پروگرام لکھاہے

لاو بھئی دیکھیں

آہا سنہری کارڈ یار جمیل دنیا چاند پرپہنچ گئی اور تم ابھی بھی لسوڑی شاہ میں ہی پھنسے ہوئے ہو اب ڈیفینس پہنچ گئے ہو چلو خیر

حسن بھائی یہ تو بچوں نےکانسیپٹ والوں سے بنوایا ہے سب سے مہنگے ڈیزائنراورایونٹ مینیجرہیں این سی اے کا ڈیزائنر ہے کہہ رہا تھا میٹ گولڈ آجکل اِن ہے

چھوڑو یار ایکس وائے زیڈ اندر سے تو وہی ساجھے گامے ہیں اور این سی اے اب کہاں این سی اے، ہر للو پنجو کو تو داخلہ مل جاتا ہے، خیرچھوڑو

اچھاجی آگے دیکھتے ہیِں، یہ کیا او بندہ خدا یہ اوپر آیت وغیرہ نہیں لکھتے بیحرمتی ہوتی ہے پتہ نہیں کب عقل آئے گی تم لوگوں کو
او بھائی یہ جوڑے جنت میں نہیں بنتے، پتہ نہیں جنت کا منہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ نہیں اور چلے ہیں جوڑے جنت میں بنوانے، جنت میں ایسے جوڑے بننے ہیں لسوڑی شاہ والے؟ ہونہہ منہ اٹھا کے جنت چل پڑے ہیں، بھائی جمیل پیسے سے عقل کا کوئی تعلق نہیں
مسٹر اینڈ مسز چوہدری جمیل، ہاہاہاہا، اوئے جمیلے تو کب سے چوہدری ہوگیا؟ ہمارے ساتھ لسوڑی شاہ میں باندرکلہ کھیلتا رہا ہے اور چوہدری جمیل، خیر کنفرم پتہ نہ ہوتا کہ تو اپنی برادری کا ہے تو بتاتا چودری جمیل ہاہاہاہا

رافع جمیل واہ جی واہ رافع اوئے وہ چوُئی کے منہ والا اسکا نام رافع ہے؟ واہ جمیلے تو تو بڑا سیانا نکلا صحیح بات ہے جی جنہاں دے گھر دانے اوہناں دے کملے وی سیانے

رافع جمیل ویڈز رابعہ شمسی، واہ جمیلے اس چُوئی کے مُنہ والے کو کس نے لڑکی دے دی؟

بس حسن صاحب اپنے ملنے والے ہی ہیں، لیفٹیننٹ جنرل سہیل شمسی اُنکی بیٹی ہے

اچھا اچھا بڑااچھا ہاتھ مارا بئی چلو ولیمے پہ ملاقات کرتے ہیں
ویسے اب تو انگریز کے زمانے کیطرح خاندان بھی نہیں دیکھتے فوج میں بھرتی کیلیئے اسلیئے بڑے ایسے ویسے بھی جنرل بن گئے ہیں خیر جنرل جنرل ہی ہوتا ہے

ہاں جی مہندی جمعے کوہے، یار وہی خرافات ہونگی نودولتییوں والی؟
نہیں جی آپکو پتہ ہے ہم تو ان چیزوں سے بھاگتے ہیں تب بھی جب آپ ہماری فریج میں برف کیلیئے کولے رکھنے آتے تھے اور شام میں ٹی وی دیکھنے آتے تھے ہم تو تب بھی سادے ہی تھے

ہے نا لسوڑی شاہ والا اگر کوئی نیکی کی ہے تو جتلاتے تو نہیں
میں تو جی نودولتیئے والی بات پہ کہہ رہا تھا ورنہ نیکیاں تواوربھی
بہت ہیں

نہ تم ہو کیا کیا ایجاد کیاہے تمہارے خاندان نے؟ خرید کے انگریز کی ٹیکنالوجی استعمال کرنے والے، نہ تمہارے بزرگوں نے فریج ٹی وی بنایا تھا جس پہ اکڑتے ہو
اچھا چل جمیلے مٹی پاء

کوئی بات نہیں جناب بس آپ عید سے اگلی اتوار کوآرہے ہِیں نا مارقی میں

اتوار کوولیمہ ہے مارقی میں، او یار مارقی میں کیا ماحول بننا کوئی فارم ہاوس ہوتا کوئی محفل ہوتی، خیرتجھے ماحول کا کیا پتہ دسویں کے بعد سے دکان پہ جانےوالے اور بارہویں کے بعد شادی کرنے والےکو زندگی تو انگریز مناتا ہے نہ تم بچے پیدا کرنے کے علاوہ تمہاری کیا تفریح ہے، تمہیں پتہ ہے ڈزنی لینڈ کس سن میں بنا، لاس ویگاس کے کیسینوکیسےہوتے ہیں، تیسری دنیا کا لنڈے کی ٹیکنالوجی استعمال کرنے والا مسلمان اوپر سے پاکستانی یعنی کریلا اوروہ بھی نیم چڑھا، تم کیا جانو مغرب کدھرہے آج- خیرقصورتمہارا بھی نہیں کںوئیں کے مینڈک

بچوں کو بھی کچھ پڑھایا کہ نہیں یا اپنے جیسے ہی ہیں ایم اے اردو پرائیویٹ؟

بس جی کوشش ہی کی ہے رافع ایم آئی ٹی سے گریجویشن کے بعد وہیں ہوتا ہے ایپل میں، بڑی بیٹی یوایس ایم ایل ای ہے وہیں ہوتی ہے نیویارک میں، چھوٹی بیٹی لندن سے لاء کررہی ہے

اچھا ہے اچھا ہے پڑھ ہی لیں ماں باپ جیسے نہ رہیں، رہنا تو وہی ہے لسوڑی شاہ والے مگر پھربھی تعلیم تو ہوگی نا پلے، تو سنا کبھی تجھے بھی امریکہ بلایا کہ نہیں یا تیری طرح کنجوس ہی ہیں؟

بس جی ہرسال چکرلگ ہی جاتا ہےابھی گیا تھا مہینے کیلیئے
خیرتونے جاکے بھی کیا کرلیاہونا ہے بس ان کی ترقی دیکھ کے پریشان ہی ہوا ہوگا – تونے کونسا آئی پوڈ ایجاد کرلیناہے

یہ تو ہے خیر آپ آئینگے شادی پہ پھر؟

بس یارمصروفیت تو ہے مگرپھر بھی پرانے تعلق تو رکھنے پڑتے ہیں ہاں جنرل صاحب سے ملاقات کروانا ایک کام ہے ان سے، تیرا بھی رعب بن جائیگا سمدھیانے پہ کہ اتنا مشہوردانشور تیراواقف ہے

اچھا میں چلتا ہوں ابھی رستے میں چوہدری پرویزالہی صاحب کوبھی کارڈ دینا ہے بات ہوئی ہے وہ گھر پہ ہی ہیں مگرانہوں نے گجرات کیلیئے نکلنا ہے

او یارکوئی ٹھنڈا گرم پی کے ہی جاتے، اچھا چوہدری صاحب کو سلام کہنا اورکہنا کہ فون سن لیا کریں کبھی ضروری کام بھی ہوسکتا ہے بندے کواور ہاں برا نہ ماننا کسی بات کا ،ہے تو تو لسوڑی شاہ والا اپنا جگر ہی

Author can be found on Twitter @anaulhaq

London Plan – 4

$
0
0

لندن پلان – حصہ چہارم

یہ منظر تھا زیرو پوائنٹ کا اور تحریک انصاف کے دھرنے سے خطاب کررہے تھے عمران خان

نثار ۔۔۔ چوہدری نثار سُن رہے ہو ؟ وقت آگیا ہے فیصلہ کرنے کا۔ کیا تم نے بادشاہت کی غلامی کرنی ہے ؟ یا ایک نیا پاکستان بنانا ہے؟ نوجوانوں ۔۔ میری بہنوں ۔۔۔ انسان اور جانور میں کیا فرق ہوتا ہے؟ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ ایک تو جانور غیرسیاسی ہوتا ہے۔ جو ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں، وہ میری بات غور سے سُن لیں۔ اگر آپ پاکستانی ہو اور غیر سیاسی ہو، تو آپ میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں۔ کیونکہ جانور ظلم کو سہتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا نیشنل جیوگرافک چینل پے۔ ہزاروں ہرن ہوتے ہیں۔ ایک سُوکھا سا چِیتا ہوتا ہے۔ ہرن کو پکڑلیتا ہے۔ اگر پندرہ بیس ہرن بھی اکٹھے ہوجائیں تو وہ چییتے کو بھگا سکتے ہیں۔ لیکن سارے ہرن بیچارے غیرسیاسی ہوتے ہیں اور وہ ڈر کے بھاگ جاتے ہیں۔

تحریک انصاف کے دھرنے سے 17 اگست 2014 کے دن عمران خان کےخطاب سے اقتباس

******************************************************
ٹویٹر کے صفحات پر پیغام ابھرا

“It always seems impossible until it is done” – Nelson Mandela

عمران خان کا 28 اگست 2014 کی شام کیا گیا ٹویٹ

******************************************************

یہ منظر تھا ڈی چوک کا اور اپنے حامیوں سے خطاب کررہے تھے علامہ طاہرالقادری

میں چونکہ ملاقات کے بعد سیدھا یہیں آیا ہوں۔ میرے ساتھ میرا وفد تھا اور ہماری براہ راست آرمی چیف کے ساتھ ملاقات تھی۔چونکہ وہی اس تمام معاملے کے لیے ، آرمی کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے ، ثالث اور ضامن بنے ہیں۔تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف صاحب کے ساتھ ملاقات تھی۔یہاں سے سیدھا وفد کے ہمراہ ہم ملاقات کی مقررہ جگہ پر پہنچے، اور ملاقات سے فارغ ہوکر سیدھا یہاں آیا ہوں ابھی۔ کسی اور جگہ نہیں گیا۔مجھے گاڑی میں خبر ملی ہے کہ شاید بعض چینلز پے اس طرح کا خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ ملاقات ختم کرکے میں چوہدری صاحبان کے ہاں گیا ہوں یا کہیں گیا ہوں۔تو بتانا چاہتا ہوں کہ کہیں اور جانے کا وقت نہیں ملا۔وفد کے ہمراہ گئے اور آرمی چیف کے ساتھ ملاقات ختم کرکے سیدھا آپ کے پاس آیا ہوں۔

علامہ طاہرالقادری کی 28 اگست 2014 کی رات آرمی چیف کے ساتھ ملاقات کے بعد کی گئی تقریر سے اقتباس

******************************************************

یہ منظر تھا قومی اسمبلی کا اور دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں اظہارخیال کررہے تھے چوہدری نثارعلی خان

میرے پاس ریکارڈ ہے۔ ایوان چاہے تو ان کے سامنے پیش کرسکتا ہوں کہ جب یہ لاہور سے چلے تو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ یہ علیحدہ علیحدہ مارچ ہوگا۔ لیکن یہ اکٹھے ہوئے، میرا بطور انتظامی ذمہ دار کے، ہمیشہ سے موقف رہا، میں نے قومی اسمبلی کے لیڈران کے سامنےبھی کل کہا کہ جب یہ معاملہ شروع ہوا، میرے پاس اطلاعات تھیں کہ یہ اکٹھے ہونگے۔میرے پاس ایسی اطلاعات تھیں کہ یہ سارے وعدے توڑیں گے، میرے پاس ایسی اطلاعات تھیں کہ یہ بالآخر ہمارے ریاستی اداروں کے دروازوں پہ آئیں گے، اور میرے پاس یہ بھی اطلاعات تھیں کہ ان کا حقیقی ایجنڈا کیا ہے۔

ایوان زیریں اور بالا کے مشترکہ اجلاس سے چوہدری نثار علی خان کی 2 ستمبر 2014 کے دن کی گئی تقریر سے اقتباس

******************************************************

دھرنا کاروانوں کے اسلام آباد میں ناکام ونامراد داخلے اور ڈیرے ڈالنے کے بعد اگلے چند تک دنوں تک علامہ طاہرالقادری تو سنبھلے سنبھلے ہوئے تھے لیکن عمران خان جس شدید صدمے سے دوچار تھے وہ چُھپائے نہیں چُھپ رہا تھا۔ زمان پارک سے روانگی کے وقت انھیں خوش فہمی تھی کہ آئندہ چند گھنٹوں ، جی ہاں صرف چند گھنٹوں کے اندراندر وہ اپنے من کی وہ مراد پانے جارہے جس کے لیے انھوں ماضی میں کئی جتن کیے تھے۔ لیکن وہ نہ ہوا جس کی انھیں آس تھی۔ جو ہوا وہ وہم وگُمان میں بھی نہ تھا۔ دلی مراد پوری ہونا تو دور کی بات، یہاں تو ابتدائی اہداف ، جنہیں اولین چوبیس گھنٹوں کے اندراندر حاصل ہونا تھا، ان کا بھی نام و نشان نہ تھا۔ الٹا لانگ مارچ میں توقعات سے کہیں کم عوامی شرکت اور اس کے بعد گوجرانوالہ اور گگھڑ کے باسیوں کی جانب سے جوتوں اور پتھروں کی بارش نے عوامی حمایت کا پول بھی کھول کر رکھ دیا تھا۔ آس تو یہ تھی کہ جُوں جُوں ان کا آزادی مارچ آگے بڑھے گا، لوگوں کی بڑی تعدار اس میں شامل ہوتی جائے گی لیکن ہوا کچھ یوں کہ جی ٹی روڈ پر اڑتالیس گھنٹے گزارنے اور خیبرپختونخواہ کے حکومتی وسائل جھونکنے کے باوجود بھی اس عظیم الشان قافلے کاحُجم بمشکل ہی سترہ ہزار تک ہی پہنچ سکا۔بات یہیں نہیں رُکتی کیونکہ کہ منصوبے کے مطابق اس لانگ مارچ کو انھی لوگوں کے بل بوتے پر تمام اہم سرکاری عمارتوں پر قابض ہونا تھا لیکن ان کے ساتھ چلنے والی عوام کی تعداد اس کے لیے ناکافی تھی۔ اس سےبھی دو ہاتھ آگے کی پریشانی یہ تھی کہ انھیں ایک لمبے چوڑے ایسے دھرنے کا امتحان درپیش ہوچُکا تھا جس کا نہ تو پورے سکرپٹ میں کہیں ذکر تھا اور نہ ہی ان کی جانب سےاس کی تیاری کی گئی تھی ۔ ایسے ہی صدمات سے دوچار کپتان نے اپنی ابتدائی تقریر “جھاڑنے” کے بعد اپنے حامیوں کو اسلام آباد کی سڑکوں اوربارش کے رحم و کرم پر چھوڑا اور خود بنی گالہ میں آرام فرمانے چلے گئے

اپنی خواہشوں کا تاج محل منہدم ہونے کا کپتان کو شدید صدمہ تھا اور اسی صدمے کے زیرِ اثر وہ عجیب و غریب حرکتیں دہراتے جارہا تھا۔ تہذیب تو موصوف کو ویسے ہی کبھی چُھو کربھی نہیں گزری تھی لیکن ان دنوں کے دوران کپتان کی جانب سے بدزبانیوں کے قائم ہونے والے نئے نئے ریکارڈ جہاں بہت سے لوگوں کی تفریح کا ساماں کررہے تھے وہیں بہت سے لوگوں کو ذہنی مریض بھی بنارہے تھے۔ موصوف کنٹینیر پر کھڑے ہو کر ڈی جے بٹ سے اپنی مرضی کی دُھنیں بجواتے،عجیب “مستی” کے عالم میں جُھومتے جُھومتے اپنے مخالفین کی گردنیں مروڑنے کی خواہش کا اظہار کرتے تو کبھی اہم سرکاری عمارتوں پر قبضے کی دھمکیاں دیتے۔کبھی ایسی ہی گالیوں کے طوفان میں چوہدری نثارعلی خان کو اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دیتے اور پھر اگلے ہی لمحے ان سمیت اپنے سارے مخالفوں کی شلواریں گیلی کروارہے ہوتے۔کبھی شاہد آفریدی کو کنٹینر پر آنے کا فرمان جاری کرتے تو کبھی اہم شخصیات کی کنٹینر پر آمد کا اعلان فرماتے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں وہ اہم شخصیت کوئی ایسا گلوکار نکلتا جو ماضی میں تھوڑے عرصے کے لیے مشہور رہ چکا ہوتا۔ اس تمام “میلے” کا سب سے بڑا نقصان خیبرپختونخواہ کو ہی پہنچا جو کہ بارشوں اور سیلابوں کی گرداب میں پھنسا ہوا تھا لیکن وہاں کی حکومت اسلام آباد میں کھڑے کنٹینر کی چھت پر ٹھمکے لگانے میں مصروف تھی۔ غرض کہ صدمہ برداشت سے باہر تھا اور کپتان کی حالت اس وقت تک نہ سنبھل سکی جب تک مداری نے اپنے بچے جمورے کو ٹرک کی نئی بتی نہ دکھا دی تھی۔ ٹرک کی یہ نئی بتی پلان بی تھا جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا کیونکہ سرِدست دو معاملات کی وضاحت ضروری ہے۔

کنٹینر کی چھت پر جاری اس “میلے” نے جس حقیقت کو پاکستانی عوام پر سب سے واضح انداز میں عیاں کیا وہ عمران خان کی ذہنی سطح ہے۔ موصوف کی حرکتیں دیکھ کر ایک لطیفہ یاد آجاتا ہے۔ ایک شخص آٹھ منزلہ عمارت کی چھت پر کھڑا تھا کہ نیچے سڑک پر کھڑے ایک شخص نے صدا لگائی ” صادق ۔۔۔ تمہارے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ ” ان صاحب نے جذباتی ہوکر فورأ آٹھویں منزل سے ہی چھلانگ لگادی۔ گرتے گرتے جب چھٹی منزل تک پہنچے توانھیں یاد آیا کہ ان کا تو کوئی بیٹا ہی نہیں۔پھر خیال آیا کہ ان کی تو شادی بھی نہیں ہوئی اور زمین کے قریب پہنچتے ہی انھیں خیال آیا کہ کہ ان کا نام تو صادق بھی نہیں۔ ان کا صاحب انجام کیا ہوا ہو گا ، اس کا اندازہ لگانا بالکل مشکل نہیں ۔ ایسا ہی کچھ عالم ان دنوں کنٹینر کی چھت سے کیے جانے والے اعلانات کا تھا۔ کسی نے موصوف کے ذہن میں مہاتما گاندھی کی کہانی بٹھا دی تو خود کو مہاتما گاندھی کا دوسرا روپ قرار دیتے ہوئے ملک میں سول نافرمانی کا اعلان کربیٹھے۔ سمجھ بوجھ اور معاملات پر گرفت کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف تو ساتھ ہی کھڑے لوگ بھی اس اعلان پر عمل پیرا نہ تھے تو دوسری طرف اتنا بھی معلوم نہیں کہ آج کے معاشی نظام میں ایسی کسی تحریک کی کامیابی کے امکانات صفر سے بھی کم ہیں۔ اگلے حملے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مشورہ دے ڈالا کہ اپنے خاندانوں کو پیسے بینکوں کے ذریعے بھیجنے کی بجائے ہُنڈی کے ذریعے بھیجیں۔ اس دفعہ کان میں پھونک مارنے والے میاں محمودالرشید تھے جو کہ خود ہُنڈی کا کاروبار کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ غرض کہ عمران خان کے عوامی تاثرکو جتنا نقصان جناب نے خود اپنی بے تُکی حرکتوں سے پہنچایا ، اتنا آج تک کسی نے مخالف نے بھی ناپہنچایا ہوگا۔

دوسری وضاحت کا تعلق ایک انتہائی اہم حکومتی وزیر چوہدری نثار علی خان کے حوالے سے ہے۔چوہدری نثارعلی خان ان دنوں وزیراعظم سے کچھ ناراض تھے۔ اس ناراضگی کا آغاز ایم کیو ایم کے رہنما بابرغوری کی بیرون ملک روانگی سے ہوا۔ بابرغوری رینجرز کے ہاتھوں اپنی متوقع گرفتاری کے پیشِ نظر ملک سے راہِ فرار اختیار کرگئے تھے۔ ائیرپرٹ پر جب انھیں روکنے کی کوشش کی گئی تو انھیں نکلوانے میں جو سفارش کام آئی وہ بھی وفاقی حکومت کے ہی ایک انتہائی اہم وزیر اسحاق ڈار کی تھی۔ سندھ رینجرز نے جب اس بات کا شکوہ ، اپنے سربراہ کے ذریعے ، وزیرداخلہ تک پہنچایا تو چوہدری نثار نےجہاں اسے اپنی وزارت کے اندر مداخلت سمجھا وہیں انھیں نوازشریف کے سامنے اپنے مقابلےمیں اسحاق ڈار کی شنوائی زیادہ ہونے کا احساس بھی ہوا۔ اُلجھن کی اس دیوار میں دوسری اینٹ تب رکھی گئی جب کراچی ائیرپورٹ دہشت گردوں کا شکار بنا۔ چوہدری نثار کی طبعیت ان دنوں سخت ناساز تھی۔ اس واقعے کے بعد جب وزیراعظم کراچی گئے تو وزیرداخلہ کی غیرموجودگی کو سب نے محسوس کیا۔ اسی صورتحال میں وزیراعظم نے بیان دیا کہ وزیرادخلہ بھی عنقریب کراچی آئیں گے اور معاملات کا جائزہ لیں گے۔ اگرچہ وزیراعظم کی ہدایت پر چوہدری نثار کراچی تو چلے گئے لیکن صحت کی خرابی کے باوجود اپنا اس طرح ہانکا کیے جانے پر ان کے دل میں موجود کدورت میں اضافہ ہوگیا۔ لیکن سب سے اہم بات جس نے معاملات کی خرابی کو ہوا دی وہ احتجاجیوں کے ساتھ نمٹنے کا طریقہ کار تھا۔ چوہدری نثار ان چند لوگوں میں شامل تھے جو کہ لندن پلان کی پکتی کھچڑی کے بارے روزِاول سے ہی آگاہ تھے اور اس سازش سے نمٹنے کے لیے اپنا ایک واضح موقف رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس احتجاج کے ساتھ سختی سے نمٹنا چاہئے لیکن دستیاب سیاسی ماحول میں نوازشریف ان سے متفق نہ تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوریت پر شبخون مارے جانے کی اس کوشش کے دوران وزیرداخلہ منظرعام سے غائب نظر آئے تاہم اپنی سرکاری ذمہ داریاں وہ پس منظر میں رہ کرنبھاتے رہے۔ ۔یہی وہ دراڑیں تھیں جن کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لندن پلان کے منصوبہ سازوں اور اس کے اداکاروں نے ۔ ایک طرف کنٹینر سے عمران خان انھیں مسلسل اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دیے جارہے تھے تو دوسری طرف ذرائع ابلاغ کے بل بوتے پر نوازشریف اور چوہدری نثار کے درمیان پائی جانے والی رنجشوں کو ہوا دینے کے لیے نت نئی افواہیں پھیلائی جارہی تھیں۔ ان سب سے ہٹ کر پس منظر میں یکم اکتوبری جرنیل ، اس وقت کے کوررکمانڈرپشاور ، جنرل خالد ربانی مسلسل چوہدری نثار پر دباو ڈال رہے تھے کہ وہ نوازشریف کو خیرباد کہہ دیں اورعمران خان کے ساتھ شامل ہوجائیں جس کا انعام انھیں وزارت عظمیٰ کے صورت دیا جائے گا۔ چوہدری نثارعلی خان اس تمام صورتحال میں انتہائی ثابت قدم رہے۔ اندازہ لگانے والے شاید آج تک نوازشریف ، شہبازشریف، چوہدری نثار علی خان، سردار مہتاب عباسی ، ظفراقبال جھگڑا اور پیر صابرشاہ جیسے لوگوں کے درمیان موجود دوستی اور قربت کی نہ تو گہرائی کا درست اندازہ لگاسکے ہیں اور نہ ہی طوالت کا۔ اس کہانی کا انجام بالآخر یوں ہوا کہ خواجہ سعد رفیق کی نوازشریف اور چوہدری نثار کے درمیان مسلسل پیغام رسانی نے برف پگھلادی۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کے چالیس کے قریب ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی نے پنجاب ہاوس میں چوہدری نثار سے ملاقات کی انھیں منا لیا۔ چوہدری نثار علی خان کی اس موقع پر حکومت سے علیحدگی ایک انتہائی گہری چوٹ ہوتی لیکن یہ چوٹ پہنچانے کے خواہشمند اس معاملے میں بھی ہاتھ ہی ملتے رہ گئے۔ اس سلسلے کے دوسری قسط تب چلی جب دھرنا گروپ نے ، جنرل ظہیرالاسلام کی جانب سے شہہ دیے جانے پر، اپنے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے ریڈزون کے اندر داخل ہونے کا اعلان کردیا۔ دونوں “قائدین” اس حملے کی قیادت اگلی صفوں میں موجود رہ کر کرنے کے اعلانات کے باوجود عین وقت پر عورتوں اور بچوں کے پیچھے چھپ کر چل رہے تھے۔چوہدری نثارعلی خان اس موقع پر بھی کسی رورعایت کے موڈ نہیں تھے اور پولیس کو پوری طاقت کے ساتھ اس مارچ کے شرکا سے نمٹنے کے احکامات جاری کرچکے تھے۔ لیکن آخری لمحات میں نوازشریف نے دخل اندازی کی اور احتجاجیوں کو ریڈزون میں داخلےکی اجازت دے دی۔ چوہدری نثار ایک دفعہ پھر اس دخل اندازی پر ناراض ہوئے اور اگلے ہی دن اپنا اسعتفیٰ وزیراعظم کے سامنے رکھ دیا۔ تاہم وزیراعظم نے سیاسی ماحول کی نزاکت بیان کرتے ہوئے انھیں رام کرلیا۔

یہاں اس بات کو واضح کرنے کی شاید ضرورت بھی نہ ہو کہ اس وقت تک دونوں احتجاجی گروہوں کے درمیان بلا کی ہم آہنگی دیکھنے کو نظر آرہا تھی۔ لاہور سے نکلنے سے لے کر دھرنا دینے،ڈیڈلائن دینے ، تقریروں کے اوقات اور بالآخر ریڈزون میں داخلے کے فیصلے سمیت ہرکام اکٹھے ہو کر کیا جارہا تھا۔ معمولی سی فہم فراست والا شخص بھی اس ہم آہنگی کے پیچھے کارفرما سکرپٹ کو پڑھ سکتا تھا

لندن پلان کی سازش کا پلان بی ، پلان اے کی طرح ہی انتہائی خطرناک تھا۔ لیکن یہ پلان لندن کی بجائے راولپنڈی کی چھاونی میں بنا تھا۔پلان بی کا مقصد یہ تھا کہ حالات و واقعات اور ذرائع ابلاغ کے بل بوتے پر وزیراعظم کو یہ باور کروادیا جائے کہ یا تو آرمی چیف بذات خود اس سازش میں شامل ہیں یا پھر وہ اپنے ماتحتوں کو قابو کرنے میں ناکام ہوہے ہیں اور اس سازش کا قلع قمع اس وقت تک نہ ہوسکے گا جب تک جی ایچ کیو میں نئی مضبوط قیادت براجمان نہ ہو جائے۔ نوازشریف اس جال میں پھنسنے کے بعد جیسے ہی آرمی چیف سمیت مختلف جرنیلوں کو فارغ کرنے کے احکامات جاری کرتے، پہلے سے تیار بیٹھے اس سازش کے منصوبہ ساز حرکت میں آتے اور افواج پاکستان کے وقار کے تحفظ کے نام پر جمہوری حکومت کا تختہ ہی الٹ دیتے۔ اس مقصد کے لیے ایک طرف ذرائع ابلاغ کے ذریعے حکومت کو بے بس اور مفلوج ظاہرکیا گیا تو دوسری طرف افسرشاہی میں موجود اپنے ہمیشہ سے نیازمند واقع ہوئے کرداروں کے ذریعے حکومتی رٹ کی دھجیاں اڑانا شروع کردی گئیں۔ پولیس کا ادارہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ بڑا مذاق بن گیا۔علامہ طاہرالقادری کو عطا کیے گئے “سپاہیوں” نے دھرنوں کے اردگرد اہم جگہیں سنبھال لیں تھیں جہاں سے پولیس کے اہلکار بھی شناخت اور تلاشی کے بغیر گزر نہ سکتے تھے۔ ایس ایس پی محمدعلی نیکوکارہ تو ہرروز وزارت داخلہ کی بجائے کنٹینروں میں اپنی روزانہ کی کارکردگی ظاہرکرنے کے لیے حاضری لگوانے کے ساتھ ساتھ اندر کی خبریں بھی پہنچانے میں مصروف تھے۔ جب انھیں اپنا قبلہ درست کرنے کا حکم دیا گیا تو ایس ایس پی صاحب رخصت پر چلے گئے۔ ان کی جگہ لینے والے نے جب کنٹینروں میں حاضری لگوانے سے انکار کیا تو عوامی تحریک کے حوالے کیے گئے “ سپاہیوں” نے ہی انھیں پتھروں اور ڈنڈوں کے ذریعے ہسپتال پہنچا دیا۔ بظاہر ریڈزون کا یہ علاقہ اس وقت ریاستی عملداری سے نکل چکا تھا اور یہ صورتحال اس وقت اور بھی دل شکن ہوجاتی جب پولیس کے اہلکار شناخت ، تلاشی یا مارکھانے جیسے سے “اہم ترین عمل” سے گزررہے ہوتے اور تھوڑی ہی دور کھڑے رینجرز اور فوج کے اہلکار ان کی مدد کو آنے کی بجائے ان مناظر سے لطف اندوز ہورہے ہوتے۔ پولیس کا استقبال پتھراو اور ڈنڈوں سے کیا جاتاتو فوج کا استقبال “زندہ باد “ کے نعروں کے ساتھ۔

اس تمام صورتحال کا حل نکالنے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں دھرنا گروپ کی طرف سے ایک ہی مطالبہ کیا جارہا تھا کہ ہمیں صرف اور صرف جنرل راحیل شریف سے بات کرنی ہے۔ ہمیں انہی کی بات پر اعتماد ہے اور ہم ان کی ہی دی ہوئی ضمانت کو تسلیم کریں گے۔ اسی طرح کے مطالبوں کی وجہ سے مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے تھے اور مذاکرات ختم کرنے کا اعلان بڑے تکبر کے ساتھ کسے ساتھ کنٹینروں سے ہی کیا گیا تھا۔

جہاں نوازشریف اس تمام صورتحال کا انتہائی تحمل کے ساتھ جائزہ لے رہے تھے وہیں ان ان کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ بحیثیت وزیراعظم ان کی رٹ ہی متاثر نہیں ہورہی تھی بلکہ یہ پُتلی تماشہ پاکستان کی بین الاقوامی سطح پربدنامی کی وجہ بھی بن رہا تھا۔ اسی پُتلی تماشے کی وجہ سے ایک طرف امیرقطر کا دورہِ پاکستان ملتوی ہوچکا تھا تو دوسری طرف چینی صدر کے دورہ پاکستان پر بھی شکوک کے دبیز پردے لہرانا شروع ہوگئے تھے۔ چینی صدر کے دورہ پاکستان کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ تھی کیونکہ اس دورے کے دوران پاک چین اقتصادی راہداری کے سلسلے میں ہونے والی بات کو چیت کو معاہدوں کا روپ دھارنا تھا۔ اس کے علاوہ چند ہی دنوں کے بعد نوازشریف کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہونا تھا اور وہ اس معاملے کو مزید لٹکانے کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے خصوصأ جب وہ اس سے چند ہی دن پہلے اپنے ترکی کے دورے کے لیے بھی ، اسی تماشے کی وجہ سے، اپنی بجائے صدر پاکستان کو بھیج چکے تھے۔ اس سلسلے میں ایک تجویز جو زیرغور آئی وہ یہ تھی کہ وزیراعظم، پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلائیں ، تمام صورتحال عوام کے منتخب نمائندوں کے سامنے رکھیں اور مشترکہ قرارداد کے ذریعے آرمی چیف سمیت اس سازش کے تمام منصوبہ سازوں کو گھر بھیج دیں۔ تاہم ایسا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے نوازشریف نے اپنے آرمی چیف سے بات کرنا لازمی سمجھی اور اسی مقصد کے لیے آرمی چیف کو طلب کرلیا۔

اٹھائیس اگست کے دن ، وزیراعظم ہاوس میں ، منعقد ہونے والی یہ ملاقات اس سازش کے لیے زہرقاتل ثابت ہوئی جس میں پہلی دفعہ نوازشریف نے جنرل راحیل شریف کے ساتھ اس سازش کے بارے میں براہِ راست بات چھیڑی۔ اسی ملاقات میں ایک اور آڈیو ٹیپ سامنے لائی گئی جو کہ انٹیلی جنس بیورو نے ریکارڈ کی تھی۔ اس آڈیو ٹیپ میں آئی ایس آئی کے اہلکاروں کے علاوہ جنرل ظہیرالاسلام کی اپنی آواز بھی شامل تھی جبکہ تحریک انصاف کے جن لوگوں کی آوازیں شامل تھیں ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جہانگیر ترین اور سیف اللہ نیازی تھے۔ اس وقت تک صرف ایک ٹی وی اینکر اور آج کے دن میں خاتون اول بننے کی خواہشمند ایک خاتون کی آواز بھی اس ٹیپ میں شامل تھی۔ اور ایک بارپھر موضوع سخن تھا لندن پلان کے نتیجے میں ہونے والے لانگ مارچ اور دھرنے اس سلسلے میں جاری کردہ ہدایات۔ جنرل راحیل شریف جہاں اس سارے معاملے کے یوں سامنے آنے پر پریشان تھے وہیں وہ اس بات پر بھی غصے میں تھے کہ ان کے تابع جنرل ظہیرالاسلام نے ان کے احکامات کو ہوا میں اڑادیا تھا۔ تاہم سب سے پہلے انھوں نے اپنی پوزیشن واضح کرنا لازمی سمجھا۔ انھوں نے فوری طور پر اسی ملاقات میں جنرل ظہیرالاسلام کو طلب کیا اور ان سے اس سارے معاملے کی بابت دریافت کیا۔ جنرل ظہیرالاسلام نے اس سارے کھیل میں اپنے ملوث ہونےکا اقرار کرلیا تو آرمی چیف نے ان سے دوسرا سوال یہ پوچھاکہ کیا انھیں اس تمام کھیل کو رچانے کے لیے آرمی چیف کی جانب سے کسی قسم کے احکامات ملے تھے ؟ ظہیرالاسلام کا جواب نفی میں تھا۔ ان دو سوالوں کے جواب مل جانے کے بعد آرمی چیف نے جنرل ظہیرالاسلام کو اس ملاقات سے چلے جانے کا کہہ دیا۔ جنرل راحیل شریف کی پوزیشن واضح ہوجانے کے بعد نوازشریف کا اگلا سوال تھا کہ ان تمام معاملات کو درست کرنے کے لیے آپ ہماری کیا مدد کرسکتے ہیں؟ اسی ملاقات کے اختتام تک یہ حکمت عملی طے پا چکی تھی کہ جنرل راحیل شریف دھرنا گروپ سے ملاقات کریں گے۔ اسی ملاقات کے دوران وہ عمران و قادری پر واضح کریں گے کہ فوج ان کے لیے کسی قسم کی خدمات انجام دینے کو تیار نہیں اورانھیں حکومت کے ساتھ اپنے تمام اختلافات مذاکرات کی میز پر ہی طے کرنے ہونگے۔

اٹھائیس اگست کی وہ شام ہنگامہ خیز ہنگامہ تھی۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات کے بعد ملکی سیاست میں بھونچال آچکا تھا۔نوازشریف تو اس ملاقات کے بعد اپنے ایک عزیز کے جنازے میں شرکت کے لیے لاہور روانہ ہوگئے لیکن اسلام آباد میں لندن پلان کے خاتمے کا آغاز ہوچکا تھا۔وزیراعظم اور اور آرمی چیف کی ملاقات کے نتیجے میں آرمی چیف نے سہولت کار کا کردار ادا کرنےکے لیے عمران و قادری کو ملاقات کی دعوت دے ڈالی تو دونوں “قائدین” سمیت ان کے تمام حامیوں کو گمان گزرا کہ بالآخر وہ لمحہ آن ہی پہنچا ہے جس کے لیے وہ اس وقت ڈی چوک میں ڈیرے ڈالے بیٹھے تھے۔ سب سے مضحکہ خیز حالت تو کپتان کی تھی جس کی اندرونی خوشی اس کے چہرے پر ایک شرمناک ہنسی کی صورت نمودار ہوچکی تھی اور اور اسکی بتیسی پھیلتی ہی جارہی تھی۔ دونوں احباب آرمی ہاوس اسلام آباد تو یہ سوچ کر پہنچے تھے کہ جیسے ہی ملاقات کا آغاز ہو گا، راحیل شریف اپنی جیب سے وزیراعظم پاکستان اور وزیراعلیٰ پنجاب کا اسعتفیٰ نکال کر ان کے حوالے کریں گے اور پھر باقی حکومتوں کو گھر بھیجنے کی تیاری اور عنانِ حکومت دھرنا گروپ کے حوالے کرنے کےمعاملات زیربحث آئیں گے ۔ لیکن شومئی قسمت کہ وہاں کا عالم ہی کچھ اور تھا۔ آرمی چیف نے واضح الفاظ میں بتادیا کہ وہ ان کے کسی بھی مطالبے کی منظوری کے لیے نہ تو کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کے ضامن بننے کو تیار ہیں۔ بہتر ہوگا کہ وہ اپنے معاملات حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ہی حل کریں۔ دونوں “قائدین” نے آرمی چیف کی ذات پر اپنے اندھے اعتماد کا اظہار کئی دفعہ کیا لیکن بات نہ بن سکی ۔ قائد انقلاب اور قائد آزادی جب واپس اپنے اپنے کنٹینر پر پہنچے تو ناکامی ان کی شکلوں پر کسی واضح تحریر کی صورت پڑھی جاسکتی تھی۔

عمران خان نے تو کنٹینر پر واپسی کے بعد اپنی سیاسی تاریخ پر لیکچر کا آغازکردیا لیکن علامہ طاہرالقادری کو جنرل ظہیرالاسلام نے چوہدری صاحبان کے اسلام آباد واقع گھر طلب کرلیا۔ یہیں انھیں پیغام دیا گیا کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ مداری کے ترکش میں ابھی ایک تیر باقی تھا۔ لیکن اب کی بار یہ تیر علامہ طاہرالقادری کو چلانا تھا۔ یہ تیر چلاتے وقت کپتان کی حمایت تو درکار ہوگی لیکن وہ ہوگی صرف نام کی۔

******************************************************

یہ منظر تھا قومی اسمبلی کا اور دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں اظہارخیال کررہے تھے میر حاصل بزنجو

مجھے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہم مشکل میں کیوں ہیں ۔ پاکستان کیوں مشکل میں ہے۔ کیا یہاں مارشل لالگ گیا ہے کہ ہم بڑی مشکل میں چلے گئے ؟ ہمارا آئین چلا گیا کہ ہم بڑی مشکل میں ہیں ؟ ہم مشکل میں ہیں ہی کیوں ؟ جناب کوئی مشکل میں نہیں ہے۔ پاکستان بالکل مشکل میں نہیں ہے۔ یہ ہمارا جمہوری رویہ ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو یہاں آنے دیا ہے اور انھوں نے ہمارے لیے یہاں مشکل پیدا کی اور اسے پاکستان کی مشکل بنائی۔ یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ بات رویوں کی ہوتی ہے۔ ہم سب نے ، ۔۔ خورشید شاہ سے لے کر ہم تمام سیاسی جماعتیں جو یہاں بیٹھی ہیں ۔۔ ہم نے حکومت کو اس بات پر مجبور کیا کہ ان لوگوں کا رستہ نہ روکیں۔ معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ لوگ دس لاکھ لوگ کے ساتھ آرہے تھے، یہاں دھرنا ہورہا تھا۔۔ جناب سپیکر ہم نے تو زندگی بھر ایک ہی کام کیا ہے کہ یا دھرنے دیے ہیں یا لانگ مارچ کیے ہیں۔ لیکن میں نے کبھی اتنا پرسکون اور آرام دہ لانگ مارچ اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ کہیں لانگ مارچ ناشتہ کررہا ہے، کہیں لانگ مارچ لنچ کررہا ہے اور کہیں لانگ مارچ ڈنر کررہا ہے۔ اس طرح لانگ مارچ نہیں ہوتا۔ ہر کسی کو دیکھو لانگ مارچ اور انقلاب سے نیچے نہیں آتا۔ ہرکوئی ماوزے تنگ بنا ہوا۔ ماوزے تنگ کا جب انقلاب کامیاب ہوا، اس وقت سے لے کر پورے چائنہ کے لوگ ایک قسم کا کپڑا پہنتے تھے۔ اس لانگ مارچ میں سینکڑوں ہزاروں لوگوں کی موت ہوئی۔ مگر ہم نے ایک نئی روایت ڈالی ہے کہ یہ لانگ مارچ چاہے کتنے کا ہو، لانگ مارچ میں پانچ ہوں یا پانچ ہزار لوگ ہوں ۔۔۔ تمہیں ماننا ہوگا کہ یہ دس لاکھ لوگ ہیں۔ معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ میڈیا نے بڑی ظلم کی داستان سنائیں کہ گوجرانوالہ میں مسلم لیگیوں نے ہمارے جلوس پر حملہ کردیا ہے۔ جناب میں نے کبھی نہیں سنا کہ میرے پاس اگر پچاس ہزار لوگ ہوں تو میرے جلوس کی طرف تیس آدمی آئیں۔ ہمیں تو تب چلا ،جب کہتا ہے کہ ہمارے اتنے بڑے جلوس کو تیس آدمیوں نے مارا ہے ، کہ پاکستان کی آبادی بہت کم ہے

ایوان زیریں اور بالا کے مشترکہ اجلاس سے میرحاصل بزنجو کی 3 ستمبر 2014 کے دنکی گئی تقریر سے اقتباس

******************************************************

پس تحریر: 28 اگست کے دن ہونے والی ملاقاتوں کو کنٹینرہی پرکھڑا ایک اور شخص بھی غور سے دیکھ رہا تھا۔ ان ملاقاتوں کے بعد اس نے کیاکیا اور کیوں کیا؟ دھرنوں کا انجام کیا ہوا؟ اور سب سے اہم بات کہ اس کھیل کے منصوبہ سازوں کاانجام کیا ہوا؟ ان تمام باتوں کا احاطہ اگلی نشست میں کیاجائیگا

جاری ہے

To Be Continued

MIQ2

About: The Author:

Mudassar Iqbal is an IT Professional serving abroad with a passion for politics and can be reached at @danney707 on Twitter

 

Faux Hotel

$
0
0

Faux Hotel
by Rafi Aamer

A lot of hot air, which has left me somewhat dumbfounded, has been hitting the airwaves in Pakistan about Nawaz Sharif’s choice of hotel while he is here in New York attending UN General Assembly’s annual session.

Before I get to that, let’s clear some of the fundamentals out of the way that may sound irrelevant but are not.

Let’s start with United States Secret Service. It’s a federal agency working under United States Department of Homeland Security. The Secret Service is responsible for the security of the president of the United States, president’s immediate family, the vice-president and his/her immediate family. This protection is not just while they are in the office; it is for life. So, the Secret Service protects all the living ex-presidents, all ex-vice presidents and so on and so forth.

An additional responsibility of the Secret Service is to protect the visiting heads of states. If you are Prime Minister of Pakistan, the Secret Service will protect you while you are in United States. They will provide you the same kind of protection that they provide to the President of the United States.

And they would love it if you are not staying in New York City (NYC). Why?

A routine protection regimen for a visiting head of a state staying at a hotel means the Secret Service would make regular electronic and canine sweeps of the hotel lobby, the room he/she is staying in, the floor he/she is staying at and the elevators in that hotel. But if that dignitary is staying in a hotel in NYC, it becomes even more complicated. Anyone familiar with NYC can tell you that the hotels in NYC do not have parking spaces (real-estate is expensive) which means that if you are Nawaz Sharif, the Secret Service would have to drive your car right in front of the hotel entrance, you would get out of the car, take a few steps to the hotel entrance…and for those few steps, you would be exposed to a sniper and the Secret Service does not like that. What they do in this situation is that they occupy part of the street, put up a tent that covers width and breadth of the distance between the car and the hotel entrance and thus ensure that when you step out of the car and enter the hotel, you are invisible to a potential sniper on a high-rise looking for you. It’s not perfect but it’s the best they can do. On top of that, they put snipers on the buildings around the hotel to return any fire when you are leaving the hotel or coming back.

One can imagine how cumbersome that is. One can also imagine how cumbersome it would further become if the Secret Service has to do all that for not just one head of a state but close to 120 heads of states at the same time. That is what they have to do whenever all these world leaders descend on New York on such UN sessions.

If everyone of these leaders decides to stay in a separate hotel, the Secret Service would have to do all that described above 120 times. That’s a logistic nightmare. So, what do they do? They give every visiting head of the state a list of recommended hotels to stay at in NYC. A lot of factors must be considered for such a list; the location of the hotel, the route from the hotel to UN and back etc. Nawaz Sharif chose Waldorf Astoria Hotel to stay. And the airwaves in Pakistan are filled with, mainly, two allegations;

1-) Waldorf Astoria is the most expensive hotel in New York
2-) The room NS is staying at is $8,000/night

Waldorf Astoria is NOT the most expensive hotel in NYC. Ritz-Carlton, The Plaza, Four-Seasons, St. Regis, all of them are more expensive than Waldorf Astoria. In fact, according to a past article by Business Insider, Waldorf Astoria is the 10th most expensive hotel in NYC. I checked their website today, and called to confirm, and their Tower Suite, the most expensive they have, is $529/night. But, hang on. There is this Presidential Suite. That goes for about $7,000 to $10,000/night. And one of the anchors in Pakistan, who yells at her audience instead of talking to them, showed the pictures of that suite in her program saying this is where Nawaz Sharif was staying. That makes sense!! He is staying at the Presidential Suite…

But, no, he cannot be.

Why?

Well, the Presidential Suite is called “presidential” for a reason. Whenever the President of the United States is in New York, that’s where he stays (that is why it is called “White House of Manhattan”). This suite has hosted every president from Herbart Hoover (1931) to Barack Obama (2014). Whoever pays $7,000 to $10,000 per night for this suite is not paying that money for the luxury but for the history of this place and for the bragging rights. Nawaz Sharif cannot be staying there because, on those very days while he would be in NYC, Barack Obama will be staying there.

Which begs the question: if Waldorf Astoria is not the most expensive hotel in NYC, then why every president of the United States chooses that hotel to be his abode while staying in NYC.

Waldorf Astoria has a unique feature that makes it the most favorite hotel in NYC for the Secret Service. Recall the tent for the arrival of the person they are protecting; Waldorf Astoria has a driveway that goes right beneath the hotel building with an entrance to the hotel, which makes it much more secure than a tent.

I passed by the Ritz-Carlton yesterday, a more expensive hotel than Waldorf Astoria, and there was much more activity outside that hotel than what I observed outside Waldorf Astoria today, which is right across my office. That tells me that there are many more dignities staying at Ritz-Carlton than there are at Waldorf Astoria. But then I can’t call them to ask to confirm since that would be the most certain way to have a knock at my door by a couple of Secret Service agents asking me why I wanted to know that.

I do not have access to some classified source. All of the above is common knowledge among New Yorkers. Any journalist or anchor in Pakistan could find all that out by browsing the net and talking to someone in New York in less than two hours. I wonder why no one bothered. Is it just laziness or has the entire media become Imran Khan: what is whispered in the ear comes right out of the mouth without a moment’s hesitation?

Note: The article was written a year earlier but it is still relevant as of today as our media hasn’t updated themselves at all.

 

About The Author:
Rafi Aamer is a USA based freelance writer and can be reached at Twitter on @Rafi_AAA

London Plan – 5

$
0
0

لندن پلان – حصہ پنجم 

یہ منظر تھا اے آر وائے نیوز کا اور وسیم بادامی کے مہمان تھے علامہ طاہرالقادری

وسیم بادامی : ڈاکٹر صاحب یہ لندن سے اس کا آغاز ہوا تھا نا، تو اس کا تذکرہ کرنا کیوں آپ نے مناسب نہیں سمجھا کہ بالکل جناب لندن میں ہماری ملاقات ہوئی تھی ؟

طاہرالقادری : دیکھیں میں اب کردیتا ہوں۔ میرا ایک طریقہ ہے کہ اگر دو آدمیوں کی ملاقات ہوئی ہو- کوئی ضروری نہیں ہے – اس کے اسباب ہوتے ہیں کہ اس کا ذکر اگر نہ کیا جائے تو بہتر ہے اور کرنا کوئی فرض اور واجب بھی نہیں تھا – لیکن چونکہ بعض لوگوں نے اس ملاقات کو ایک فتنے کا رنگ دینا چاہا اور اس کو لندن پلان بنانے کی کوشش کی اور ایسا تاثر دیا ، غلط بیانی کے ساتھ ، کہ شاید کوئی پلان بنا ہے ، شاید وہ ملاقات کسی نے کروائی ہے- اور اشارہ شاید وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ یا آئی ایس آئی کی طرف کرنا چاہ رہے کہ شاید کسی نے اس ملاقات کا انتظام کیا ہے۔ اس وجہ سےمیں اب اس کو بیان کرنے میں کوئی تعامل محسوس نہیں کرتا کہ ملاقات ہوئی تھی مگر اس میں نہ کوئی فریق تیسرا شامل تھا، نہ ہی کسی کے ایماء پر ہوئی اور نہ ہی کسی تیسرے نے اس ملاقات کا انتظام کیا تھا۔

وسیم بادامی: اس ملاقات میں یہ طے ہوا کہ اس طرح ہم ساتھ چلیں گے اور پھر منزل ہوگی ڈی چوک یا جہاں پر بھی ہم بیٹھیں ؟

طاہرالقادری : میرا مطلب ہے اس تحریک اور جدوجہد کے بارے میں ایک اجمالی سی گفتگو ہوئی اور جوصورتحال آپ کے سامنےہے۔

اے آر وائی نیوز کے 16 ستمبر 2014 کے پروگرام “ایلیونتھ آور” سے اقتباس

*******************************************************************

یہ منظر تھا جیو نیوز کا اور حامد میر کے مہمان تھے جاوید ہاشمی

جاویدہاشمی: یہاں جو ریٹائرڈ لوگ ہیں نا، جرنیل اور بریگیڈئیر ، یہ سازشی سمجھے جاتے ہیں۔ آپ مجھے بتائیں، جو بریگیڈئیر اعجاز شاہ ہیں، ہماری پریس کانفرنسز اس نے تیارکی ہیں۔

حامد میر: کون سی پریس کانفرنس ؟

جاوید ہاشمی: یہ جو تھی کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ خان صاحب نے جو کی ہے۔

جیوز نیوز کی دھرنوں کے سلسلے میں 2 ستمبر 2014 کے دن کی خصوصی نشریات سے اقتباس

*******************************************************************

یہ منظرتھا جیونیوز کا اور مینب فاروق کے ساتھ بات کررہے تھے نجم سیٹھی

ایک وقت ایسا آیا تھا، آج آپ کو آپس کی بات بتادوں۔ جب یہ عمران خان صاحب کا دھرنا چل رہا تھا اور آپ کو یاد ہے کہ ٹی وی سٹیشن پر بھی حملہ ہوا۔ تو اس وقت ایسے ہی لوگ پیشنگوئیاں کررہے تھے کہ چھٹی ہوگئی اور ابھی جنرل راحیل آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ جائیے اب بڑا مشکل ہوگیا ہے۔ تو اسی دن یا اس کے ایک دن بعد فوج کی طرف سے کسی کو نوازشریف صاحب کی طرف بھیجا گیا۔ ان صاحب نے خصوصی درخواست کی کہ میں ملنا چاہتا ہوں آپ سے کیونکہ بہت اہم پیغام ہے آپ کے لیے۔ میاں صاحب نے رات کے بارہ بجے یہ ملاقات کی۔ پیغام وہ یہ لے کر گئے تھے کہ میاں صاحب کوئی رستہ نکالیں۔ میاں صاحب نے آگے سے کہہ دیا کہ کوئی رستہ نہیں ہے اگر آپ رستہ نکالنا چاہتے ہیں تو آپ کو کس نے روکا ہے؟ مگر رستہ تو یہی ہے کہ ہم بیٹھے ہیں یہاں۔ جب وہ بات نہیں بنی تو پھر آخری وقت پہ وہ پیامبر جو تھا، اس نے کہا “میاں صاحب کچھ تے دیو نا” ۔ تو میاں صاحب کہا ” کی لینا اے تُسی ؟ “۔ تو اس نے کہا کہ ” فیر اس طرح کرو کہ مشرف دی جیہڑی ٹرائل اے، اس نوں ختم کرو۔ مشرف نوں باہر جان دیو”۔ تو میاں صاحب نے کہا ” ایہہ نئیں ہوسکدا”۔ آپ سوچیں کہ باہر لوگ تجزیہ کررہے تھے کہ ابھی گئے میاں صاحب اور یہ سازش مکمل ہونے والی ہے۔ اور میاں صاحب کا عالم یہ تھا کہ ” نئیں ۔۔ میں بیٹھیا آں۔ کڈھنا جے تے کڈھ دیو۔ میں نئیں جانا”۔

جیونیوز کے پروگرام آپس کی بات کی 3 جنوری 2015 کی قسط سے اقتباس

*******************************************************************

لندن پلان کی ناکامی تو اٹھائیس اگست کی اسی رات طے ہو چکی تھی جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عمران و قادری کو باری باری ، جنرل ظہیرالاسلام کے ساتھ ، اپنے سامنے بٹھا کر بتادیا تھا کہ وہ خود اور ان کا ادارہ عمران و قادری کے لیے کسی قسم کی خدمات انجام دینے کو تیار نہیں۔ لیکن منصوبہ سازوں کو اپنی یہ شکست ہضم نہیں ہورہی تھی اور اسی لیے ہرپلان کی ناکامی کے بعد وہ مزید ایک بھونڈے پلان کے ساتھ سامنے آرہے تھے

اب کی بار “قائدانہ” کردار علامہ طاہرالقادری کو سونپنے کا ارادہ باندھ لیاگیا تھا ۔ علامہ طاہرالقادری اس وقت تک اس پوری کہانی میں ایک سائے کا کردار ادا کررہے تھے ۔ ذرائع ابلاغ کے اندر ہرزاویے سے اگر کوئی موضوعِ بحث تھا تو وہ کپتان ہی تھا ۔ ذرائع ابلاغ کے جغادری، لندن پلان کے تحت جھوٹ سچ جوڑتے ہوئے ، اگر کسی کو آنے والے وقت میں ملک کی عنانِ حکومت سونپ رہے تھے تو وہ بھی کپتان ہی تھا۔ اخباری تصویریں، تقریریں، کب چلنا ہے ، کب رُکنا ہے ، کدھر جانا ہے ، کیا ڈیڈلائن دینی ہے ۔۔ غرض کہ ہرانداز سے اس بارات کا دولہا کپتان ہی کو بنا کر پیش کیا جارہا تھا ۔ علامہ طاہرالقادری کے ذمے بہرحال زیادہ مشکل کام تھا ۔ جگہ جگہ پولیس سے لڑنا ہو یا رکاوٹیں توڑنی ہوں، دھرنے کے اندر مجمع بنائے رکھنا ہوں یا کپتان کے مسلسل سکڑتے دھرنے کا بھرم رکھنا ہو ۔۔۔۔ ہر معاملے میں طاہرالقادری ہی کام آئے ۔ حتیٰ کہ اس دھرنے کے دوران ایسے مواقع کئی دفعہ آئے جب طاہرالقادری کو مسلسل نظرانداز کیے جانے کی وجہ سے انھیں لندن پلان کے منصوبہ سازوں کو پیغام دینا پڑا کہ اگر ان کی جانب نظرالتفات نہ موڑی تو وہ اپنا “انقلابی چھابہ” سمیٹ کر چلتے بنیں گے۔ لیکن مسلسل ناکامی سے دوچار حکمت عملی تشکیل دینے والے منصوبہ سازوں کو اب مجبوری کے تحت اس قافلے کا “قائد” تبدیل کرنا پڑ ہی گیا تھا اور اس کا اثر ذرائع ابلاغ میں بھی جھلکنا شروع ہوگیا۔ اس مقصد کے لیے متحدہ وحدت المسلمین کے زیرسایہ اپنے تربیت یافتہ “سپاہی” طاہرالقادری کے حوالے تو کیے گئے تھے لیکن ایسے کسی اقدام کے الزام کا بوجھ بحرحال طاہرالقادری کو ہی اٹھانا تھا۔

بہرحال حکم ہوا کہ اتمامِ حُجت کے تحت دودن انتظار کرلو اور پھر چڑھ دوڑو۔ لاشیں گریں گی تو وہ حالات پیدا ہوجائیں گے جن کے زیرِاثر ہم راحیل شریف کو اس عمل پر راضی کرلیں گے ، جس سے ابھی تک وہ انکاری ہیں۔ ایک دوسرے کے پاس پاس ہی کھڑے کنٹینروں میں مسلسل کھُسر پھُسر جاری تھی۔ کپتان کو پیغام بھجوایا گیا کہ اب ایوان وزیراعظم پر قبضے کا حکم آگیا ہے۔ کپتان کے کے لیے یہ پیغام رد کرنا مشکل تھا اسی لیے حامی بھرکے ہی بنی۔ مسئلہ لیکن یہ ہوا کہ قریبی ساتھی اس عمل کے حامی نہ تھے۔ راحیل شریف کے حکم کے بعد تحریک انصاف کے اکثرلوگ “بیبے بچے” بن کر مذاکرات کرنے میں مصروف میں تھے۔ لیکن کہیں بات بن ہی نہ جائے، ایسے کسی امکان کی روک تھام کے لیے منصوبہ سازوں کی جانب سے مقرر کیے گئے “مُنکرنکیر” تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ ہی بھیجے گئے تھے۔ اگرچہ تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم مختلف زاویوں سے وعدے وعید کرنے میں مصروف تھی لیکن کنٹینروں کے درمیان جاری پیغام رسانی ایک مختلف کھچڑی کی دیگ چڑھائے بیٹھی تھی۔ کنٹینر پرموجود ساتھیوں کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہوئے عمران خان وعدہ کربیٹھے کہ وہ طاہرالقادری کے ساتھ مل کر کسی سرکاری عمارت پر دھاوہ نہیں بولیں گے۔ یہی پیغام ، بذریعہ شیخ رشید اور سیف اللہ نیازی ، علامہ طاہرالقادری کو بھیجا گیا۔ طاہرالقادری کو یہ پیغام نہ بھایا تو انھوں نے صاف الفاظ میں بتادیا کہ اگر عمران خان آگے نہیں جاسکتے تو انھیں کیا مصیبت پڑی ہے۔ لہِذا عمران خان یہاں بیٹھے رہیں، ہم بوریا بستر لپیٹ کر واپسی کا رستہ لیتے ہیں ۔ شیخ رشید اور سیف اللہ نیازی نے یہی پیغام واپسی پر عمران خان کے کانوں میں پھونکا تو کپتان آگے گڑھا پیچھے کھائی کی صورتحال سے دوچار ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد منصوبہ سازوں کا براہ راست پیغام آگیا تو کپتان کے لیے انکار کی کوئی صورت نہ رہی۔ چنانچہ کپتان اٹھا اور شاہراہ دستور پر دھرنے کے اعلان کی صورت میں ایوانِ وزیراعظم اور قومی اسمبلی پر حملے کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کی سب سے زیادہ مخالفت کی آڑ میں سدا کے موسمی باغی، جاوید ہاشمی ، نے ٹائٹینک سے چھلانگ لگانے کا بہترین موقع تلاش کرلیا اور کنٹینر سے اتر کر واپسی کی راہ لیتے ہوئے اس کارواں سے جُدا ہوگیا۔

جاوید ہاشمی بلاشبہ پاکستانی سیاست کی چند نامور ترین سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں اور لندن پلان کی کہانی بھی ان کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ۔ خود کو باغی کا لقب دینے والے جاویدہاشمی بہرحال ایک انتہائی دلچسپ کردار ہیں۔ پاکستان کے اکثر سیاستدانوں کی طرح کی “باغی” نے بھی سیاست میں قدم مارشل لاء کے زیرسایہ ہی رکھا۔ تاہم موصوف پاکستان کی تاریخ میں آنے والے تمام مارشل لاوں کے خاتمے کا ذمہ دار خود ہی کو قرار دینے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ ہاشمی صاحب اتنے ذہین سیاستدان ہیں کہ زندگی بھر اپنے لیے ایک حلقہ انتخاب تو بنانے میں ناکام رہے لیکن ہرکسی کی سیاسی اٹھان کے پیچھے خود کو موجود قرار دیتے پائے جاتے ہیں۔ اپنی انا کے اسیر ہیں۔انا کے تابع ہوتے ہیں تو دہائیوں پرانے تعلقات تجّ دینے میں بھی ذرا سی دیر نہیں لگاتے۔ ذرائع ابلاغ کےلیے بہرحال وہ بہت ہی محبوب ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے بل بوتے پر ہی سیاست میں زندہ بھی ہیں۔ باغی کا سب سے زیادہ وقت نوازشریف کے ساتھ گزرا۔ نوازشریف کی جلاوطنی کے دوران انھیں پارٹی کا صدر بنایا گیا تو دوتہائی اکثریت والی جماعت سکڑتی سکڑتی سترہ نشستوں پر آن ٹھہری۔ اگرچہ آمریت کے اس دور میں مسلم لیگ ن خصوصی “شفقت” کا مرکز رہی تھی لیکن پھر بھی کوئی قابل قائد اسے قابلِ ذکر جُثے میں قائم رکھ سکتا تھا۔ دس برس تک پارٹی کی صدارت پاس رکھنے کے باوجود بھی ہاشمی صاحب اپنے قائد کی وطن واپسی کے لیے کسی قسم کی تحریک برپا کرنے میں ناکام رہے۔ ان دس برسوں کے دوران موصوف بچے کھچے کارکنوں سے اس قدر دور رہے کہ کارکنان کے ساتھ رابطہ رکھنے میں نوجوان حمزہ شہباز ان پر برتری لے گئے۔ ہاں ۔۔۔ لیکن جاوید ہاشمی نے جیل بڑی بہادری سے کاٹی۔ جیل میں گزرنے والا ان کا وقت پرویزرشید جتنا سخت تو نہیں تھا لیکن اس کے باوجود بھی انتہائی انسانیت سوز سلوک کا انھوں نے سامنا کیا۔ اس کا انعام مسلم لیگ ن کے کارکنان نے انھیں اپنی پلکوں پربٹھاکر دیا۔ لیکن باغی کی انا کا پہاڑ بہت اونچا تھا۔ نہ جانے کہاں سے انہیں خوش فہمی لاحق ہوگئی کہ نوازشریف وطن واپسی کے بعد خود سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں گے اور اپنی سیاست جاوید ہاشمی کے قدموں میں نچھاور کردیں گے۔ نوازشریف اور جاوید ہاشمی کے دوران خلیج پیدا ہوئی اور پھر وہ وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی۔ لیکن ہاشمی کے پاس کوئی دوسرا ٹھکانہ نہ تھا۔ پھر اچانک ، اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احمد شجاع پاشا کی بدولت ، تحریک انصاف کے تنِ مُردہ میں جان پڑنا شروع تو باغی کو بھی نیا ٹھکانہ نظرآنا شروع ہوگیا۔ موصوف نے انتہائی خاموشی سے بحریہ ٹاون کی ایک کوٹھی میں دو “فرشتوں” اور ٹی وی اینکر عمران خان کی موجودگی میں تحریک انصاف کے ساتھ معاملات طے کیے اور باغی سے انصافی ہونےکو تیار ہو بیٹھے۔ بات جب باہر نکلی تو دہائیوں کے پرانے ساتھی انھیں منانے پہنچ گئے۔ خواجہ سعد رفیق کے گھر بیگم کلثوم نواز بھی انھیں مسلم لیگ ن نہ چھوڑنے کےلیے قائل کرتی رہیں لیکن باغی ٹس سے مس نہ ہوا۔ اگلے دن ہرقدم پر ساتھ نبھانےوالے اور جاوید ہاشمی کو جاوید ہاشمی بنانے والے کارکنان اس کے رستے میں لیٹے اسے منانے کے جتن کرتے رہے لیکن ہاشمی ان سب کے سینوں پر چلتا ہوا، آہوں اور سسکیوں کے درمیان کئی عشروں پر پھیلے سلسلے توڑ گیا۔ تحریک انصاف کے اندر شروع میں تو خوب آو بھگت ہوئی لیکن جہاں ہاشمی گیا تھا وہاں نہ تو دہائیوں کےتعلقات تھے ، نہ سوچ میں شرم تھی اور نہ ہی آنکھ میں حیاء۔ ابدی مخالف شاہ محمود قریشی نے جلد ہی انھیں کونے میں لگانا شروع کردیا۔ تحریک انصاف کو عام انتخابات میں شکست ہوئی تو اس کا الزام بھی باغی کے سریوں تھوپا گیا کہ موصوف نے تحریک انصاف کی انتخابی ٹکٹیں فروخت کی ہیں۔عمران خان تو شروع سے ہی کانوں کے کچے واقع ہوئے ہیں۔ فوری طور پر اس الزام پر یقین کرلیا اور اب کی بار باغی اور کپتان کے بیچ میں ایک خلیج حائل ہوچکی تھی۔ ہاشمی کو تحریک انصاف چھوڑنی ہی تھی لیکن وہ مناسب موقع کے انتظار میں تھا۔ پھر لندن پلان کی داغ بیل پڑی تو ہاشمی کو محسوس ہوا کہ اب کم ازکم نوازشریف کے ساتھ وہ حساب بے باق کرسکتا ہے۔ ہاشمی اس تمام کھچڑی کی حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود بھی کنٹینر پرسوار ہوکر اسلام آباد فتح کرنے اور نوازشریف کی گردن مروڑنے کے لیے چلے آئے۔ چھوٹی موٹی ضدیں تو ضرور کیں لیکن کئی دہائیوں پُرانے ساتھیوں کو بھی خاطر میں نہ لانے والا ضدی ہاشمی، یہاں بڑے آرام سے مان جاتا تھا۔ اٹھائیس اگست کی اس رات تک کامیابی کی امید تھی تو ہاشمی کنٹینر پرہی موجودتھا۔ تیس اگست کی رات تک ہاشمی جان چکا تھا کہ نوازشریف کا پلڑا بھاری ہے اور ڈی چوک سے آگے جانے سے باقی عمر کے لیے بدنامی تو کمائی جاسکتی ہے لیکن نوازشریف کو گرایا نہیں جاسکتا۔ لہٰذا جاوید ہاشمی کنٹینر سے اترے اور ایک اور موسمی بغاوت کی تیاری کرلی۔آج جب جاوید ہاشمی ذرائع ابلاغ کے سامنے ، ان کے انتہائی مودبانہ رویے کے رویے کے تحت، جنرل پاشااور جنرل کیانی کی تحریک انصاف کے لیے حمایت اور لندن پلان کے پیچھے جنرل ظہیرالاسلام سمیت باقی یکم اکتوبری جرنیلوں کی شمولیت کے پول کھول رہے ہوتے ہیں تومجھ ناچیز جیسے لوگ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ جب ہم یہی باتیں کہتے تھے تو جاوید ہاشمی ہماری انہی باتوں کو جھٹلاتے تھے۔ اب خود وہی پول کھول رہے ہیں۔ اگر انھیں یہ معلوم تھا اور یہ اتنے ہی مخلص تھے تو اس وقت خاموش کیوں رہے؟ اگر تب خاموش رہے تھے تو اب کیوں بول رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ کہ جاوید ہاشمی ایک موسمی باغی ہیں۔ عمران خان کی اُٹھان کو نوازشریف کا زوال سمجھے تو نوازشریف کا ساتھ چھوڑدیا۔ لندن پلان کی حقیقت جانتے ہوئے بھی نوازشریف سے حساب بے باق کرنے کے لیے کنٹینر پرسوار ہوگئے۔ اور پھر جیسے ہی عمران خان کی ناکامی واضح ہوئی توانگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوانے چل پڑے۔ آج ہم سب جانتے ہیں کہ اٹھائیس اگست کی رات کو دھرنوں کی قسمت کا فیصلہ ہوچکا تھا اور یہی وہ وقت تھا جب ہاشمی کو سچ یاد آیا۔ بحرحال ہاشمی کی یہ بغاوت انھیں خاصی بھاری پڑی اور منصوبہ سازوں نے ملتان کے اندر ان کا جینا دوبھرکردیا۔ جہاں بھی جاتے، اچانک کہیں سے چند “نوجوان” نمودار ہوتے اور ہاشمی کا گھیراو کرلیتے۔ پھر انھیں ملتان کے اندر ضمنی الیکش لڑنا پڑا تو مسلم لیگ ن کے انہی کارکنان سے ووٹ مانگتے پائے گئے جن کے سینوں پر چل کر وہ تحریک انصاف میں گئے تھے۔ مسلم لیگ ن کے ووٹروں کی ناراضگی ان کی حالیہ بغاوت کے باوجود بھی دور نہ ہوسکی اور ہاشمی کو ملتان سے بدترین شکست ہوئی۔ آج بھی مسلم لیگ ن کے اندر جاوید ہاشمی کے بہت سے حامی موجود ہیں۔ ممکن وہ عنقریب مسلم لیگ ن میں دوبارہ شامل بھی ہوجائیں۔ لیکن جاوید ہاشمی کے ساتھ مسلم لیگ ن کے کارکنان کی ناراضگی ابھی بھی جاری ہے۔ آئندہ انتخابات میں اگر مسلم لیگ ن نے انھیں ملتان کے اسی حلقے سے ٹکٹ دیا تو وہ ایک بار پھر بوجھ ہی ثابت ہونگے۔

تیس اگست کی رات بالآخر وہ تیر چلانے کی کوشش کی گئی جو کہ شروع دن سے ہی سکرپٹ کا حصہ تو تھا لیکن ناکافی شرکاء کے باعث اس پر عمل درآمد کی نوبت نہ آسکی تھی۔ دونوں کنٹینروں سے ایوان وزیراعظم کے سامنے دھرنے کا اعلان ہوا لیکن پسِ پردہ مقاصد اس قومی عمارت سمیت قومی اسمبلی پر دھاوا بولنا تھا۔ واقفان حال تو یہاں تک بتاتے ہیں کہ دو گاڑیوں میں پچاس کے قریب کلاشنکوفیں وہاں پہنچانے کا بندوبست ہوچکا تھا۔ افراتفری کے اس عالم میں یہ مہلک ہتھیار اندھا دھند فائرنگ کے کام آتے اور کئی لاشیں گرا کر وہ ماحول پیدا کیا جاتا جس کے بل بوتے پر ایک دفعہ پھر سے “میرے عزیزہموطنو” کی راہ ہموار کی جاتی۔ لیکن اب تک کی تمام صورتحال کو انتہائی تحمل مزاجی کے ساتھ سنبھالتی حکومت اب اس موقع پر کسی قسم کی غلطی دہرانے کو تیار نہ تھی۔ حفاظتی دستوں کے حوالے صرف ربڑ کی گولیوں، لاٹھیوں اور آنسوگیس سے زیادہ کچھ نہ کیا گیا۔ دوسری طرف آزادی و انقلاب مارچ اور دھرنے کے قائدین اپنے بچے کھچے حامیوں کے ساتھ شاہراہ دستور کی طرف بڑھنا شروع ہوئے تو ایک دفعہ پھر”قائدین” نے کنٹینروں اور بلٹ پروف گاڑیوں میں پناہ لے لی۔ ڈی چوک سے آگے جانے کی اجازت دینا ، وہ بھی پسِ پردہ مقاصد سے واقف ہونے کے باوجود، بہرحال حکومت کے لیے ممکن نہیں تھا۔ لٰہذا تصادم ہوا۔ آنسو گیس چلی، لاٹھی چارج ہوا اور ربڑ کی گولیاں بھی چلیں۔ احتجاجیوں اور پولیس کے درمیان جب یہ دھینگا مشتی چل رہی تھی تو عمران خان کنٹینر کے اندر دُبکے بیٹھے تھے۔ ایک دفعہ کنٹینر کی چھت پر تو آئے، چند تصویریں بھی بنوائیں لیکن جلد ہی دوبارہ سے کنٹینر کے اندر جا چھپے۔ یہی حال علامہ طاہرالقادری کا تھا جو کہ اپنی بُلٹ پروف گاڑی کے اندر چُھپےبیٹھے تھے۔ ساری رات پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی آنکھ مچولی چلتی رہی۔ انھی جھڑپوں کے دوران احتجاجیوں نے درختوں کو آگ بھِی لگائی اورایک ٹرک استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے دروازے توڑنے کے بعد اندر بھی داخل ہونا شروع ہوگئے لیکن یہ کوئی بہت بڑی تعداد نہ تھی۔ ان عمارتوں کی حفاظت پر مامور فوج نے ان عمارتوں کی حفاظت بس نام کی ہی کی۔ بحرحال تمام ہنگامے کے باوجود بھی پولیس کا پلڑا بھاری رہا، قومی املاک پر حملہ آور منتشر ہوتے گئے اور منصوبہ سازوں کو وہ لاشیں نہ مل سکیں جن کی انھیں تلاش تھی۔ جن دوگاڑیوں کے اندر کلاشنکوفیں بھجوائیں جارہی تھیں وہ رستے میں ہی پکڑی گئیں۔ حملہ آورساری رات پولیس سے لڑتے رہتے اور منتشرہوتے رہے لیکن “قائدین” کے کنٹینر اس پوری رات میں ڈی چوک سے کلومیٹردور واقع شاہراہ دستور تک کا سفر طے کرنے میں بھی ناکام رہے ۔ اگلے دن ، دوپہر کے قریب دونوں کنٹینر شاہراہ دستور کے قریب پہنچے ضرور لیکن اس وقت تک اس مجمعے کے کس بل بھی نکل چکے تھے۔ احتجاجیوں کی بڑی تعداد منتشرکی جاچُکی تھی۔

اسی دوران اس باسی کڑھی میں درمیانے درجے کا ایک اور ابال آیا۔ 2 ستمبر کے دن افواجِ پاکستان کی کورکمانڈر کانفرنس منعقد ہونے جارہی تھی۔ اس کانفرنس سے پہلے لندن پلان کے منصوبہ سازوں کا کام آسان کرنے کے لیے ہی ایوان وزیراعظم اور قومی اسمبلی پر چڑھائی کی گئی تھی۔ مطلوبہ نتائج تو حاصل نہ ہوسکے تھے لیکن اسی ناکام کوشش میں جان ڈالنے کے لیے یکم ستمبر کے دن پی ٹی وی پر چڑھائی کردی گئی۔ مسئلہ تاہم یہ ہوا کہ تھوڑی ہی دیربعد فوجی دستوں کی آمد ہوگئی اور عمارت خالی کرنا پڑی ۔ حیران کُن نظارہ مگر تھا کہ فوجی دستوں کی آمد کےبعد جب یہ قابض گروہ “پاک فوج زندہ باد” کے نعرے لگاتے ہوئےوہاں سے نکل رہا تھا تو پاک فوج نے بھی انھیں گرفتار کرنے کی بجائے خاموشی سے انھیں جانے دیا۔ مقصد حالات کے بگاڑ کو اس نہج تک لے جانا تھا کہ کورکمانڈرکانفرنس کے دوران یکم اکتوبری جرنیل اپنی بات منواسکیں ۔ جنرل راحیل شریف اس پیداشدہ صورتحال کے پردے میں رچائے گئے کھیل سے بخوبی واقف ہوچکے تھے۔ اس دن تمام کورکمانڈر ویسے ہی ، یوم دفاع کے سلسلے میں ہونے والی ایک تقریب کے لیے ، جی ایچ کیو میں ہی موجود تھے۔ آرمی چیف نے بات کو مزید ٹالنے کی بجائے وہ اجلاس اسی شام طلب کرلیا۔ کورکمانڈرکانفرنس کے دوران لندن پلان کے پانچوں منصوبہ ساز، آرمی چیف کو قائل کی کوششوں میں مصروف رہے کہ ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ فوج کو معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لینے چاہئیں۔ لیکن جنرل راحیل شریف نے ایسے کسی بھی دباو کو خاظر میں لانے سےانکار کردیا۔ اپنی اسی ناکامی کے صدمے سے چور یکم اکتوبری جرنیلوں کو خوف تھا کہ اس اجلاس کے بعد ان کی جانب سے سامنے لائے گئے مہروں کو بذریعہ طاقت منتشر کرنا حکومت کے لیے بہت آسان ہوگا۔ یہ انہی جرنیلوں کی آخری خواہش تھی جس کے سبب کورکمانڈرکانفرنس کے اعلامیے میں حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وہ طاقت کا اسعتمال نہ کرے۔ عمران و قادری کے ساتھ راحیل شریف کی ملاقاتوں کے دوران دیے گئے پیغام کے بعد کورکمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ بھی بہت واضح تھا۔ لیکن کپتان کو پھر بھی نہ جانے ایسی کونسی آس تھی کہ وہ ابھی بھی کسی انہونی کے انتظار میں تھا۔ یہی انہونی آس تھی کہ جب اگلے دن آرمی چیف، وزیراعظم سے ملاقات کررہے تھے تو کپتان اپنے کنٹینر کے اوپرایسے بے چینی کے عالم میں ٹہل رہا تھا جیسے وہاں سے تھوڑی ہی دور ہونے والی ملاقات سے اسے اپنے لیے کسی بڑی اہم خبر نکلنے کا انتظار ہو۔ لیکن وہ خبر نہ آنی تھی اور نہ آئی۔ صرف چند ٹی وی چینلزسے افواہ ضرورگھمائی گئی جس کا شور بھی چند گھنٹوں سے زیاد برقرار نہ رہ سکا۔

نوازشریف اس ساری صورتحال سے نمٹنے کے لیے موقع محل کی مناسبت سے اپنے پتے چلتے جارہے تھے۔ کورکمانڈرکانفرنس کی مناسبت سے ہی وہ دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس پہلے ہی طلب کرچکے تھے جس کا آغاز بھی دوستمبر کے دن ہی ہوا۔ اسی اجلاس کے دوران تحریک انصاف کے سوا، پاکستان کے کروڑوں ووٹوں سے منتخب ہونے والی جماعتیں اور ان کے اراکین ایک چھت کے نیچے جمع ہوئے۔ سب نے اپنی سیاسی وابستگیاں اور اسمبلی کے اندر اپنی پوزیشن کو ایک طرف رکھا اور یکجا ہوکراپنے وزیراعظم کے پیچھے کھڑے ہونے کا پیغام دیا۔ قومی اسمبلی کے ہال سے وہ پیغام دیا گیا جس نے کسی بھی متوقع طالع آزما کے ذہن میں کلبلاتے کیڑوں کو جنم لینے سے پہلے ہی فنا کردیا ۔ مختلف اراکین کی جانب سے کی گئی تقاریر کے دوران لندن پلان اور اس کے محرکات پر کھل کر بات کی گئی ۔ انقلاب و آزادی کے نام پر تماشہ گروں کو اس قدر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ علیحدہ علیحدہ کنٹینروں پر موجود “قائدین” ایک ہی کنٹینر پر اکٹھا ہونے کے بعد “کزن” بننے پر مجبور ہوگئے ۔ پورے ملک کے کونے کونے سے منتخب ہونے اراکین کی تقاریر نے نہ صرف کنٹینروں سے منہ دھوئے ان دھوئے سے جاری تقریری مقابلے کا تسلسل توڑدیا بلکہ نوازشریف کے لیے وہ ماحول بھی پیدا کردیا جس میں وہ اس کاغذی کاروائی کو مکمل کرسکتے تھے جو ان دھرنوں کو یتیم و مسکن بنا دیتی۔ چانچہ یکم اکتوبری جرنیلوں کو سابق کرنےکی فائل وزیرِدفاع خواجہ محمدآصف کی جانب سرکاری ڈاک کی بجائے ایک انتہائی قریبی افسر کے ہاتھوں روانہ کردی گئی۔ خواجہ آصف اس وقت قومی اسمبلی کے ہال سے باہر نکل رہے تھے جب یہ فائل ان تک پہنچی۔ خواجہ آصف نے وہیں قومی اسمبلی کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اس فائل پردستخط کیے اور لندن پلان کے تمام منصوبہ سازوں کو سابق کرنے کی کاغذی کاروائی مکمل کردی گئی ۔ کاغذی کاروائی کی تکمیل نے لندن پلان میں موجود بچے کھچے دم خم کا کام بھی تمام کردیا ۔ دوسری طرف مسلسل جاری دھرنے اور ناکامیاں اس کھیل کے اداکاروں کے اعصاب شل کرنے کے ساتھ منتظمین کی مالی حالت بھی پتلی کرچکے تھے۔ ان حالات میں علامہ طاہرالقادری تو اپنا بوریا بستر سمیٹنے کے اشارے دینا شروع ہوگئے تھے لیکن کپتان کا ذہن ابھی تک حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔ یہ کپتان کا ہی اصرار تھا کہ طاہرالقادری کو بھی منصوبہ سازوں کی موجودگی کے آخری دن تک انتطار کرنا چاہئیے۔ لیکن اسی دوران دھرنا پر ایک اور خبر بجلی بن کر گری جب نوازشریف نے جنرل ظہیرالاسلام کے جانشین کے لیے ڈی جی رینجرز سندھ رضوان اختر کو، ترقی پانے کے بعد ، ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کردیا۔ اگرچہ باقی یکم اکتوبری جرنیلوں کو یکم اکتوبر کو روانہ ہوجانا تھا لیکن جنرل ظہیرالاسلام کو نومبر تک کام کرنا تھا تاکہ جنرل رضوان اختر کے معاملات سنبھالنے تک ڈی جی آئی ایس آئی کا عہدہ خالی نہ رہے۔ منصوبہ سازوں کی یہی عارضی موجودگی تھی جس کے بل بوتے پر دھرنے کو مسلسل طول دیا جارہا تھا

منصوبہ سازوں نے ناکامی کا غم الوداعی دعوتیں اڑانے میں غلط کرنا شروع دیا تو اس گروہ کا سردار سرکاری خرچے پر حج کی سعادت حاصل کرنے لیے حجازمقدس روانہ ہوگیا۔ لیکن منصوبہ سازوں کی انگلیوں پر ناچنے والے دھرنے شاہراہ دستور پر یتیم و مسکین کی سی صورت لیے چند دن گزارنے کے بعد ڈی چوک پر واپس لوٹ آئے۔ دھرنا گروپ جو کہ پہلے سے ہی لاوارث ہوچکا تھا کچھ نہ کچھ کارکردگی دکھانے کے لیے جلسوں میں مصروف ہوگیا۔ کپتان اگرچہ مسلسل بلند و بانگ دعوے کرنے میں مصروف تھا لیکن علامہ طاہرالقادری کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ پھر جیسے ہی نئے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر نے سرکاری طور پر اپنے عہدے کا انتظام سنبھالا تو طاہرالقادری نے اپنا بوریا بستر سمیٹنے میں ذرا دیر نہ لگائی ۔ لندن پلان کے نام پر رچائے کھیل کے تمام کردار انھیں روکنے کی پوری کوشش کرچکے لیکن انھوں نے اپنے لاولشکر کوسمیٹ کر اسلام آباد سے روانگی میں ہی عافیت جانی۔ علامہ طاہرالقادری کی روانگی کی دیر تھی کہ کپتان کے دھرنے کا رہا سہا بھرم بھی جاتا رہا۔ کپتان کی زیرِقیادت کئی شہروں میں جلسے کے نام پر “محفل موسیقی” سجانے کے بعد ایک بار پھر پورے پاکستان کو اسلام آباد آنے کی دعوت دی گئی تو عوامی بے اعتنائی نے اداکاروں کو پہلے سے بھی زیادہ مایوس کردیا۔ 30 نومبر کی اس شام شاید کپتان کو پہلی دفعہ سمجھ آئی کہ وہ اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا جوا کھیل کر ہار بھی چُکا۔ لوگوں کی مایوس کن حد تک شرکت کو ذرائع ابلاغ نے بے شک چُھپا لیا ہو لیکن تھکا ہارا ہوا کپتان تو سب کے سامنے تھا اور سمجھنے والے خوب سمجھ رہے تھے۔ اس کے بعد تو دھرنے کی حالت ایسی ہوگئی کہ کنٹینر کے اوپر موجود لوگوں کی تعداد کی سامنے بیٹھے حاضرین سے زیادہ ہوگئی۔ کپتان کی آواز میں گھن گرج رہی اور نہ ہی زور۔ اس کسمپرسی کو چھپانے کے لیے مختلف شہروں کو بند کرنے اعلان کیا گیا جس کے اختتام پر پورے پاکستان کو بند کرنے کی “خوشخبری” سنائی گئی۔ تاہم اس معاملے میں ہونے والی ناکامیوں کی پردہ پوشی بھی ذرائع ابلاغ کے انتہائی معتصبانہ رویے کی مرہونِ منت ہی رہی۔

جہاں دھرنا ہرگزرتے دن کے ساتھ بے آبروئی کی نئی منزلیں طے کرتا جارہا تھا وہیں کپتان کی اپنی زندگی میں بہار آرہی تھی۔ اس سارے کھیل کے بیچوں بیچ ایک رومانوی داستاں بھی جنم لے چکی تھی۔ دھرنے کی ناکامی کا غم غلط کرنے کے لیے کپتان ایک ٹی وی اینکر ریحام خان کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ اگرچہ ابتداء میں اس بات کو خفیہ رکھا گیا لیکن نومبر کے ابتدائی دنوں میں ہونے والا یہ نکاح خفیہ نہ رہ سکا اور دسمبر میں اس نکاح کی ایک مزید تقریب منعقد کرکے اسے عام کیا گیا۔ خدا دونوں کی یہ جوڑی مبارک کرے۔

پھر ایک دن قدرت کو کپتان پر رحم آگیا ۔ سولہ دسمبر کا دن پاکستانیوں پر ایک بارپھر سے قہربن کے ٹوٹا۔ اس دفعہ انسانیت سوز دہشت گردی کا نشانہ بنے آرمی پبلک سکول کے معصوم بچے۔ یہ ایسا وقت تھا جب فوج کو ہرقسم کی سیاسی حمایت کی ضرورت تھی۔ چنانچہ عمران خان کو ایک “خاکی” نمبر سے فون آیا اور کسی قسم کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے صرف اتنا پیغام دیا گیا کہ اپنا یہ تماشہ بند کرو اور پشاور پہنچو۔ ہروقت “میں نامہ” پڑھنے کا عادی عمران خان اس ایک پیغام کی تاب نہ لاسکا اور سیدھا پشاور جا پہچنا۔ وہاں سے واپسی پر دھرنا سمیٹنے کا اعلان کیا اور بنی گالہ میں جا چھپا۔ یوں لندن پلان کا ہاتھی ، جو کہ اٹھائیس اگست کی رات کو گزرچکا تھا، سولہ دسمبر کو اس کی دم بھی گزرگئی۔

*******************************************************************

یہ منظرتھا ایوانِ وزیراعظم کا اور نوازشریف سے ملاقات کررہے تھے جنرل ظہیرالاسلام

جنرل ظہیرالاسلام اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد سابق ہوچکے تھے۔ جنرل صاحب حال ہی میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے تھے اور اب وزیراعظم سے روایتی الوداعی ملاقات کررہے تھے۔ اس ملاقات کے دوران جنرل ظہیرالاسلام نے نوازشریف کو بتایا ” سر مکہ اور مدینہ میں ، میں نے آپ کی کامیابی کے لیے بہت دعائیں کی ہیں۔ اللہ آپ کو کامیاب رکھے”۔ نوازشریف زیرلب ہلکا سا مسکرائے اور بولے ” جنرل صاحب پھر تو مجھے آپ کا بہت شکرگزار ہونا چاہئیے”۔ اس کے بعد وزیراعظم نے اپنے سٹاف کو خصوصی حکم کہ جنرل صاحب کےلیے شکریہ کا خصوصی خط تیارکروایا جائے۔ جیسے ہی شکریہ کا یہ خصوصی خط تیار ہوا، نوازشریف نے اپنے دستخطوں کے ساتھ “شکریہ” کی یہ خصوصی سند جنرل ظہیرالاسلام کے حوالے کی اور انھیں خداحافظ کہنے کے بعد ریٹائرڈ زندگی گزارنےکے لیے روانہ کردیا۔

سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیرالاسلام کی وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ 5 نومبر 2014 کے دن ہونے والی الوداعی ملاقات سے اقتباس

*******************************************************************

پسِ تحریر: لندن پلان کی کہانی یہیں تمام ہوتی ہے۔ تاہم اس کی ناکامی کی وجوہات سمیت دو اور دلچسپ پہلووں پر بات اگلی نشستوں کے دوران جاری رہے گی

جاری ہے

To Be Continued

MIQ2

About: The Author:

Mudassar Iqbal is an IT Professional serving abroad with a passion for politics and can be reached at@danney707 on Twitter

 

Pakistan UN General Assembly Mein

$
0
0

پاکستان اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی میں

پوری دنیا کے میڈیا کی نظریں نیویارک میں جاری اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس پر مرکوز ہیں دنیا بھر کے سربراہانِ مملکت اپنے وفود کے ساتھ اس اجلاس میں شریک ہیں تمام ممالک عالمی صورتحال پر بات کرنے کے علاوہ اپنے اپنے ملک کا سافٹ امیج دکھانے تجارت، معاشی تعاون اور دنیا میں امن سمیت اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان نواز شریف بھی اپنے وفد کے ہمراہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں شریک ہیں دنیا بھر کا میڈیا اور سوشل میڈیا اپنے اپنے ملک اور سربراہ کی حمایت کرتا نظر آتا ہے لیکن پاکستان کی صورتحال یکسر مختلف ہے بُغض اور تنگ نظری میں مبتلا ایک طبقہ وزیراعظم پاکستان کا مذاق اڑانے اور تذلیل میں پیش پیش ہے اس کارِ خیر میں چند اپنے ولّوں نامور صحافی حضرات بھی حصہ ڈالتے نظر آتے ہیں ہم شاید دنیا کی واحد قوم ہیں جو اپنے ہی ملک اور سربراہ کی تذلیل کرنے مذاق اڑانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ہمارے ہاں کے نام نہاد مُحبِ وطن کہلانے والا سوشل میڈیائی جہادی طبقہ سوشل میڈیا پر بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی امریکی صدر اوباما اور فیس بک کے بانی مارک زکر برگ سے “جھپھیوں” کی تصاویر لگا کر اسے بھارت وزیراعظم کی فتح اور کامیاب ڈپلومیسی کے فتوے دیتے اور کہیں وزیراعظم پاکستان کی اہم ملاقاتوں کا خود ساختہ آنکھوں دیکھا حال بیان کرکے اپنے ہی وزیراعظم کا مذاق اڑاتے پروپیگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں بھارتی وزیراعظم کے ہوٹل کے کرائے کا موازنہ کرتے اپنے وزیراعظم کو عیاش اور بھارتی وزیراعظم کو سادہ لوح اور فرشتہ صفت قرار دیتے ہیں اس میں شاید ان سوشل میڈیائی جہادیوں کا اتنا قصور نہیں جتنا ہمارے ہاں ٹنل وژن رکھنے والے سیاسی لیڈران کا ہے جنہوں نے ذہنی مریضوں کی ایسی کھیپ تیار کردی ہے جو مثبت انداز میں سوچنے سے قاصرہیں جمہوری حکومت کے ہر عمل پر تنقید کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں اور بوٹ چاٹنا آمروں اور آمریت کا پرچار کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔

تو عرض یہ ہے کہ جنابِ والا جہاں ایک طرف “ذہنی مریضوں” کے چہیتے نریندر مودی “جھپھیوں” اور “پپیوں” میں مصروف ہیں وہیں دوسری طرف وزیراعظم پاکستان نواز شریف اوران کی ٹیم نہ صرف عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں بلکہ بھارتی میڈیا بھی نریندر مودی کی بجائے پاکستانی وفد کو فالو کرتا نظر آتا ہے وزیراعظم پاکستان نواز شریف اپنی ٹیم کے ساتھ پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لئے بھرپور لابنگ کرتے نظر آتے ہیں تین دنوں میں وزیراعظم پاکستان نے اہم ممالک جرمنی، ترکی سری لنکا، سویڈن، ساؤتھ کوریا،نیپال اور سینگال کے سربراہانِ مملکت سے ملاقاتوں میں مصروف نظر آئے ان ملاقاتوں میں ان ممالک کے ساتھ تجارت، معاشی تعاون اور دہشت گردی کے خاتمے دہشتگردی کے خلاف جنگ پاکستان کی کوششوں اور دیگر معاملات پر بات چیت کی گئی ان تمام ممالک کے سربراہان نے پاکستان کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے پراتفاق کیا جبکہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز بھی اس دوران مسلسل پاکستانی موقف کی لابنگ میں مصروف نظر آئے اور 20 اہم ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی اور ہر فورم پر پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا،جس میں کشمیر ایشو ،لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ اور کوششوں پر بات کی گئی ملاقاتوں کا یہ سلسلہ وزیراعظم پاکستان اور ان کی ٹیم جاری رکھے ہوئے ہیں مائکروسافٹ کے سربراہ بل گیٹس نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کے دوران پاکستان کی پولیو کے خاتمے کی کوششوں کی تعریف کی اوروزیراعظم پاکستان کی ذاتی دلچسپی اور پاک فوج کے قبائلی علاقوں میں پولیو کے خاتمے کی مہم میں کردار کو سراہا، سری لنکن صدر نے ڈیولپمنٹ اور دفاعی تعاون پر وزیراعظم پاکستان کا شکریہ ادا کیا ملاقات میں کرکٹ، تجارت، معاشی اور دفاعی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا، جرمن چانسلر اینجلا مارکل سے ملاقات میں دونوں سربراہان نے پاک جرمنی تعلقات اور افغانستان سمیت خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، وزیراعظم پاکستان نے چینی صدر کی دعوت پر ساؤتھ-ساؤتھ کوآپریشن سمٹ میں شرکت کے دوران پاک چائنہ اقتصادی راہداری کو منفرد منصوبہ قرار دیا اور کہا پاک چائنہ اقتصادی راہدری کی تعمیر سے پورے خطے کو فائدہ ہوگا،وزیراعظم نوازشریف نے جینڈر امپاورمنٹ اور یو این او پیس کیپنگ سمٹ میں بھی شرکت کی ،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے ملاقات کے دوران وزیراعظم پاکستان نے بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کا معاملہ اٹھایا اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا اور زور دیا اقوام متحدہ اس مسئلےکو حل کرانے میں کردار ادا کرے، ان ملاقاتوں کے علاوہ سب سے اہم سمجھی جانے والی ملاقات وزیراعظم پاکستان اورامریکی وزیر خارجہ جان کیری کی ہے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا تھا واشنگٹن ،وزیراعظم پاکستان کے دورے کا منتظر ہے جان کیری نے دہشتگردی کے خلاف جاری پاک فوج کی جنگ اور پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو سراہا نواز شریف اور جان کیری کی ملاقات پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کے نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے تاہم وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے قبل یہ ملاقات خوش آئند ہے۔

وزیراعظم پاکستان نواز شریف 30 ستمبر کو اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں خطاب کے دوران مسئلہ کشمیرسمیت دیگر امور پر بھی بات کریں گے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرانے پر زور دیں گے میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستانی وفد کسی ایسے موقعے کی تلاش میں ہے جہاں عالمی رہنماؤں کے سامنے پاکستان میں دہشتگردی میں بھارتی مداخلت کا معاملہ بھی اٹھایا جائے اس سلسلے میں پاکستانی وفد نے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے پاکستانی وفد کی ترجیحات اور ملاقاتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی وفد مکمل تیاری کے ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہواہے۔

مودی کی “جھپھیوں” اور “پپیوں” کو کامیاب پالیسی اور ڈپلومیسی قرار دینے والوں سے گزارش ہے کہ خدارا تھوڑی تحقیق تھوڑا مطالعہ ہی کرلیں شاید آپ کو “ڈپلومیسی” اور “بونگیوں” کا فرق سمجھ آجائے ورنہ کسی اچھے ماہرِ نفسیات سے رابطہ ضرور کریں افاقہ ہوگا بغض اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت اور فوج سمیت تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کررہے ہیں پاکستان جمہوری ملک ہے جمہوریت میں ہی پاکستان کی ترقی ہے آمریت کے خواہش مند ذلیل و رسوا ہوں گے
انشاءاللہ
پاکستان زندہ باد

نوٹ: مندرجہ بالا مضمون وزیراعظم کے جنرل اسمبلی سے خطاب سے پہلے لکھا گیا تھا مگر کل رات جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کے خطاب سے اس مضمون کے مندرجات کی توثیق ہوتی ہے – ادارہ

About The Author:

Muhammad Bin Kamran is an is Advisor in an Australian based company. Can be found on Twitter @MBK1993

Masjid E Raheel Sharif

$
0
0

مسجد راحیل شریف
میں ہمیشہ کہتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ فرد ہو معاشرہ یا ملک، اس کا حال ماضی سے کاٹ دیا جائے تو وہ اندھا تو نہیں مگر ایک کان کٹے کی طرح غیرمتوازن ضرور ہو جائے گا۔ آگے بڑھنے کے بجائے دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہی لڑھکتا رہے گا۔ اس کا ماضی جو اس کے شعور، لاشعور اور تحت لاشعور میں کہیں عیاں کہیں نہاں ہے اسکی شخصیت میں جھلکتا رہے گا، اور وہ اپنی بری عادات سے چھٹکارہ پا سکے گا نہ اپنی خوبیوں کو بہتر بنا کر ان سے کوئی افادہ حاصل کر سکے گا۔

اب مثال کے طور پر آپ ہمارے پاکستانی معاشرے کو ہی لے لیں۔ ہمارے اکثریتی لوگ ہندو سے مسلمان ہوئے مگر طاقتور حلقوں کی شہ پر انکے اس ماضی کو دھندلانے اور بھلانے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔ اب ہمارے معاشرے میں ہندو مذہب کی جو باتیں در آئیں انہیں درست کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے کہ ہم نے ماضی کے ساتھ تعلق توڑ دیا ہے۔

ہندو مت نے نیچر کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کے لیے اپنے سے ہر طاقتور اور افادیت والی چیز کی پوجا کی جس میں مظاہر فطرت سے لیکر زندہ شخصیات بھی شامل ہیں مثلاً آج کے انڈیا میں امیتھابچن، ٹنڈولکراور مودی وغیرہ کے بت اور مندر موجود ہیں۔

لیکن زرا شانتی رکھیں یہ ہر طاقتور کو اپنا مائی باپ کہ کر اسکے سامنے سجدہ ریز ہونے کا تعلق ہندو ماضی سے ہی نہیں بلکہ مسلمان ماضی سے بھی ہے جس کے ایک سرے فرزند بنو امیہ محمد بن قاسم سے ہم اپنا تعلق جوڑتے ہیں۔ حاکم کو خدا کا سایہ قرار دینے والے علماء کا جنم تو واقعہ کربلا سے پہلے ہی ہو گیا تھا اور بعض مورخین کی رائے میں تو اسلامی فقہ کے ایک ستون حدیث کی تدوین بھی حاکم وقت کی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی۔

اب یہ معاملہ محض ماضی اور مزہب کی موشگافیوں کا ہی نہیں بلکہ تہزیب اور مشرقی روایات کی قربان گاہ پر ہر نئی سوچ کی بلّی دینے اور اپنے سے بڑے کی بات ماننے کے عمل کو بھی فرسودہ معاشرتی رواج کا ایسا حصہ بنایا گیا ہے جس میں ہم بچے کو ماں باپ کے احترام کا سبق دیتے ہوئے اسے شریکوں، رشتہ داروں اور محلے داروں کی جاسوسی سے لیکر باہر دروازے پر کھڑے انکل کو کہلواتے ہیں کہ ابو گھر پر نہیں۔ اب آپ ہی مجھے بتائیں کہ کیا ہم لوگ جھوٹ،فراڈ،حسد، کینہ سے بھرپور ایک ایسے معاشرے کی بنیادیں مضبوط نہیں کر رہے جس میں خوشامد، چاپلوسی وجہ کامیابی ہو گی اور ہر جائز و ناجائز فائدے کے لیے طاقتوروں کے سامنے جھکنا اور کمزوروں کو جھکانا ایک عام چلن

لیکن اب ہمارے معاشرے کے افراد بھی کیا کریں، صدیوں سے متواتر ہونے والی فوج کشی کا ایک لازمی نتیجہ وہ ایک اجتماعی رویہ ہے جو بالخصوص پنجاب میں واضح دیکھا جا سکتا ہے۔ پنجاب، سلطان محمود غزنوی کے حاکم بننے سے پہلے ہی اپنی سلطنت کا ایک بڑا حصہ کھو چکا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد یہ صورت حال تھی کہ دریائے اٹک کے پار چڑھنے والے لشکریوں کا اگلا پڑاؤ پانی پت کا میدان ہوتا تھا اور وہاں سے برصغیر کی راجدہانی دہلی صرف ایک لڑائی کے فاصلے پر۔ مزید جب چند اور صدیاں گزریں تو احمد شاہ ابدالی کو ہم نے خود دعوت دیکر حملے کے لیے بلا یا۔

ویسے آجکل کے لشکری سوٹ اور ٹائی میں ملبوس آتے ہیں اور ہماری خدمات ڈالروں کے عوض کرائے پر وصول کرتے ہیں۔ اگر وہ ہماری زمین پر قدم رنجہ فرمانا چاہیں تو ہم بخوشی انہیں اپنے گھر سے راہداری کی سہولت بھی عنایت کرتے ہیں۔ کل کے ہمارے اثاثے آجکے خارجی ٹھرتے ہیں کہ آخر طاقتوروں کی جواب طلبی کی مجال کس میں۔ ہمارے ہیرو بیک وقت انہی خارجیوں کے روحانی باپ بھی، ان کے بانی بھی اور انکے مخالف بتائے جانے والے بھی۔

پاکستانیوں کی طاقتوروں سے مرعوب ہونے کی اس نفسیات کا بعض گروہوں نے بڑی چالاکی سے استحصال کیا ہے۔ اپنی حکمت عملی اور حالات کے پیش نظر خود کو بے حد مضبوط، طاقتور اور بے داغ ثابت کر کے بھولی عوام کے ذہنوں میں انہوں نے اپنا ایک دیومالائی کردار بنا کر اپنے سردار کو ایک دیوتا کی شکل میں ملکی سلامتی اور بقاء کے مندر میں بٹھا رکھا ہے۔

آئیے ہم سب ملکر دعا کریں کہ دنیاوی طاقتوں کو دنیاوی طاقت ہی سمجھا جائے اور انکو اپنے مطلب براری اور زاتی حرص کے لیے دیوتائی مقام نہ دیا جائے۔ یہ جو ہر فرد اور گروہ اپنے آپ کو تنقید سے مبرا سمجھتا ہے اسے واپس اسکے مقام پر لا سکیں۔ اقبال نے کہا تھا
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
اسکو ہم ایسے پڑھتے ہیں
خوشامد ہے بڑی چیزجہان تگ و دو میں

لیکن رک جائیں اگر ہم نے دعا کرنی ہے تو میرا خیال ہے ہم یہ دعا اللہ کے گھر میں کریں، اور بالخصوص اس اللہ کے گھر میں جو کسی نیک پرہیزگار شخص نے اپنی حلال پاک کمائی سے بنایا ہو یا کم از کم اس کے نام پر کسی اور نے بنایا ہو،
کیا کہا ملک ریاض کی بحریہ ٹاؤن مسجد میں چلیں، ارے نہیں حضور، سادی باتیں نہ کریں۔
سوشل میڈیا پر ایک پھیلائی جانے والی حدیث کی روشنی میں جس مسیحا کی آمد ہونا تھی وہ آچکا ہے جس کو دانا و بینا صاحب بصیرت لوگوں نے پہچان کر اس کے نام پر مسجد بھی بنا دی ہے۔ وہ آرمی چیف بننے سے پہلے تک پردہ غیب میں تھا مگر باوجود کوشش کے اس کا بھانڈہ پھوٹ گیا ہے۔ اب ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ قافلہ در قافلہ مسجد راحیل شریف جانے کا قصد کرے اگر وہ وہاں جانے کی استعداد نہیں رکھتا اور اگر رکھتا ہے تو جانا فرض ہے۔
چلو چلو مسجد راحیل شریف چلو
چلو چلو مسجد راحیل شریف چلو
سب راستے سب قافلے مسجد راحیل شریف

adeelaura

Writer Raja Adeel Aurangzeb can be reached on his twitter handle @AAJ140


London Plan-6

$
0
0

<

لندن پلان – حصہ ششم  

یہ منظر تھا جیو نیوز کا اور حامد میر کے مہمان تھے چوہدری نثارعلی خان

عمران خان کے ایک پرانے انٹرویو کا ایک حصہ دکھانے کے بعد حامد میر نے سوال کیا کہ عمران خان صاحب نہ صرف ون ٹو ون مقابلہ کرنا چاہتے ہیں نوازشریف کا الیکشن میں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ٹی وی پروگرام میں بھی ایک مقابلہ ہو۔ تو نوازشریف صاحب کیوں ان کے مقابلے پر نہیں آتے ؟

چوہدری نثار : حامد میر صاحب میں آپ سے سرِعام گِلہ نہیں کرتا۔ کبھی کبھی کرتا ہوں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ آپ ان [عمران خان] پر فرینڈلی باولنگ کرتے ہیں۔

جیونیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک کے 19 دسمبر 2012 کے دن نشر ہونےوالے پروگرام سے اقتباس

**********************************

یہ منظر تھا لندن میں واقع ہیتھرو ائیرپورٹ کا اور اخباری نمائندوں سے بات کررہے تھے نوازشریف

صحافی: وزیراعظم ہونے کے ناطے آپ ، جذبہ خیرسگالی کے طور پے ، عمران خان صاحب کو ملنے کے لیے بنی گالہ گئے تھے۔ تو ابھی بھی آپ ان کو ذاتی طور پہ دعوت دیں کہ وہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں اور آپ ان کے تحفظات دور کرسکیں

نوازشریف: کونسا چینل ہے آپ کا ؟

صحافی : ایکسپریس نیوز

نوازشریف : آپ ذاتی طور پر بات کررہے ہیں یا چینل کی طرف سے ؟

نوازشریف کا اتنا کہنا تھا کہ اردگرد کھڑے تمام لوگ اس بات میں چھپے طنز کو سمجھتے ہی قہقہے لگا کر ہنسنے لگے۔

نوازشریف کی 14 نومبر 2014 کے دن لندن میں میڈیا کے نمائندوں سے ہونے والی بات چیت سے اقتباس

**********************************

یہ منظر تھا آج نیوز کا اور ابصارعالم کے مہمان تھے خواجہ محمدآصف

خواجہ آصف : کمرشلزم میں میڈیا اس قدر آگے نکل گیا ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ اچھا ۔۔۔ یار یہ چیزبِکتی ہے، سوِل ملٹری تعلقات میں خرابی آرہی ہے، اس کو بیچو۔ ملک کا کیا نقصان ہوتاہے ، کوئی اس سے غرض نہیں۔ لیکن فرض کریں کہ میں نے کوئی ایسا نام لے دیا ہے جو ان کو وارے میں نہیں ہے، مثال کے طور پر میں نے اگلے دن ایک چینل پر ایک نام لیا ہے جو میں نے ابھی بھی نام لیا ہے ، انھوں نے وہ حصہ ہی کاٹ دیا۔وارے میں نہیں تھا۔ وہ دوبارہ اس چکر میں نہیں پھنسنا چاہتے تھے جس میں پہلے پھنس گئے تھے۔

آج نیوز کے پروگرام باٹم لائن وِد ابصار کے 11 جولائی 2014 کو نشر ہونے والے پروگرام سے اقتباس

**********************************

خواجہ آصف جس چینل کا ذکر کررہے تھے وہ کوئی دوسرے یا درمیانے درجے کا ٹی وی چینل نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے صحافتی گروپ کا مشہورترین چینل جیونیوز ہے ۔ اسی طرح خواجہ آصف کےمذکورہ تبصرے پر قینچی چلانے والے صاحب بھی کوئی معمولی اینکر نہیں۔ پشتون روایات کے امین اور اپنے قبائلی پسِ منظرپر فخرکرتے ہوئے اپنے مخالفین کو سرِعام دھمکیاں دینے والے ان صاحب کا نام ہے سلیم صافی۔ سلیم صافی تواپنے اس عمل کی توجیہہ اس مشکل وقت کو بنا کر پیش کرتے ہیں جب جنگ گروپ کو حامدمیر پر ہونے والے حملے اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں تختہ مشق بنادیا گیا تھا لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ کیونکہ ہمارا میڈیا بھی کوئی نیک نام شعبہ نہیں۔

برصغیر کے اندر ذرائع ابلاغ تو قیامِ پاکستان سے بھی پہلے سے متحرک ہوچُکے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی پاتے گئے۔ پاکستانی تاریخ کے غالب عرصے میں عوام خبروں کے حصول کے لیے یا تو سرکاری ٹی وی کے محتاج تھے یا پھر ریڈیوپاکستان کے۔ یہاں اخبارات کی تاریخ تو ریڈیو سے بھی پرانی ہے لیکن مایوس کُن شرح خواندگی نے اس حلقےکےقارئین کی تعداد کو بھی قابو میں رکھا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ہماری تاریخ میں اخبارات بھی مکمل آزادی کا مزہ چکھنے سے قاصر ہی رہے۔ پاکستان میں آزاد میڈیا کا ہوا درحقیقت 2007 میں کھڑا ہوا۔ اگرچہ نجی ٹی وی چینلزکی ایک بڑی تعداد اس وقت تک گذشتہ کچھ برسوں کے دوران نمودارہوچکی تھی لیکن ہمارا “آزاد” میڈیاانتہائی سعادت مندی کا مظاہرہ کرتا رہا تھا۔ نوازشریف کے دوسرے دور کی رخصتی اکتوبر 1999 میں ہوئی تو ہمارے اسی “آزاد” میڈیا نے کسی چُوں چراں کے بغیر نا صرف “فاتح پاکستان” کو خوش آمدید کہا بلکہ ان کے اندر چُھپے ہوئے اس “مسیحا” کو بھی ڈھونڈھ نکالا جس سے خود جنرل پرویزمشرف بھی لاعلم تھے۔ اس دور میں صرف عطاالحق قاسمی اوراللہ بخشےعباس اطہرمرحوم ہی دو ایسی آوازیں تھیں جنہوں نے اس فوجی “انقلاب” کو آئین شکنی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے انتظامی بندوبست کو آمریت گردانا۔ باقی کی تمام صحافتی برادری طیارہ سازش کیس کی حقیقت سے مکمل واقفیت رکھنے کے باوجود بھی نوازشریف کو مجرم قرار دیتی رہی اور انھیں اسی جُرم کے تحت پھانسی کے تختے تک پہنچانے کے لیے دلائل کے انبار بھی لگاتی رہی۔ اس مُہم میں پیش پیش کوئی اور نہیں بلکہ آج کے میڈیا میں موجود صف اول کے صحافی جناب حامد میر تھے۔ جی ہاں وہی حامدمیر جن پر ہونے والے حملے نے ہمارے “آزاد” میڈیاکو تابعداری کی اس معراج پر پہنچادیا ہےکہ جس کا تصورکرنا بھی آج سے چند برس پہلے تک مُحال تھا۔ اگلے آٹھ برسوں تک ملک میں آمریت بھرپور قوت کے ساتھ راج کرتی رہی لیکن ہمارے “آزاد” میڈیا کے بڑے بڑے جغادریوں کو ایوانِ صدر کے اندر بیٹھا ہوا باوردی فوجی آمر صدرِ پاکستان ہی دکھائی دیا۔ کہانی میں نیا موڑ تب آیا جب این آر او کا جہاز سیاسی بحر کے ساحل پر لنگرانداز پر ہوا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی این آر او کے تحت مستقبل کے انتظامی بندوبست میں کلیدی کردار اختیار کرتے ہوئے آرمی چیف منتخب ہونے جارہے تھے اور امریکہ نے جنرل پرویزمشرف کو اپنے لیے بوجھ سمجھتے ہوئے انھیں فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ دوسری طرف جنرل مشرف عدلیہ کے ساتھ اختیارات کی جنگ چھیڑ بیٹھے تھے جوکہ جلد ہی اقتدار کی جنگ میں تبدیل ہوگئی۔اس جنگ میں ہرکسی نے اپنا اپنا حساب بے باک کیا۔ باربارکی آمریتوں سے تنگ آئے ہوئے سیاستدانوں نے اپنا وزن عدلیہ کے پلڑے میں ڈال دیا تو جنرل مشرف کو گھر بھیجنے کے خواہشمند جنرل کیانی کے اشارے پر ذرائع ابلاغ کو بھی الہام ہوگیا کہ پرویزمشرف تو ایک آمر ہیں۔ آمریت کی دیوار گررہی تھی۔ ہردوسرے عنصر کی مانند میڈیا بھی اس دیوار کو دھکا دینے والوں میں شامل ہوگیا۔ اسی ہنگام میں میڈیا ،بالخصوص، نیوزچینلز اور ان کے پردوں پر رونما ہونے والے جغادری ہیروبنتے جارہے تھے۔ شاہین صہبائی، حامدمیر، کامران خان، طلعت حسین، انصار عباسی وغیرہ جیسے کئی ایسے لوگ تھے جن کا حلقہ اثرماضی میں ملک کی ایک تہائی آبادی تک ہی محدود تھا اور یہ حلقہ بھی اخبارات کے قارئین کا تھا ۔ لیکن نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار اور ان کی ہنگاموں سے بھرپور نشریات نے نہ صرف ایسے لوگوں کو گھر گھر تک رسائی دے دی بلکہ انھیں ستاروں کی سی حیثیت عطا کردی ۔ ڈاکٹر شاہد مسعود جیسے لوگ بھی ٹی وی کے پردے پر نمودار ہوچکے تھے جن کا صحافت سے دور دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ اس چکاچوند نے پاکستان کے ہرشعبہ زندگی کے لوگوں کو ایسا مسحور کیا کہ اپنے اپنے شعبہ جات میں ناکامی سے دوچارلیکن تھوڑی بہت پہنچ رکھنے والے لوگ بھی ٹی وی کی پردے پر صحافی اور تجزیہ کار بن بیٹھے ۔ مبشرلقمان ،معید پیرزادہ ، رابی پیرزادہ اور عائلہ ملک وغیرہ ایسی ہی چند مثالیں ہیں۔ یہ تمام صورتحال ایک تماشے سی شکل اختیار کرتی گئی۔ کوئی قیامت تک کے لمحے گنتے پایا گیا تو کوئی جنات سے بات چیت میں مصروف ہوگیا۔ کوئی پارک کے اندر رومانوی جوڑے تلاش کرتا پایا گیا توکوئی خود کو اصولوں کے اعلیٰ معیار پر فائز کررہا تھا ۔ کوئی سیاستدانوں کو لڑانے میں مصروف تھا تو کوئی عجب کرپشن کی غضب کہانی لکھ رہا تھا۔ کوئی ناچ گانا دکھانے میں مصروف تھا تو کوئی پنجابی تھیٹر سےبےروزگار ہونے والے مسخروں کی مدد سے ملکی معاملات پرسیرحاصل “بحث” کرنے میں مصروف تھا۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ ناطرین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مسخروں کی سی یہ حرکات آج کے دن تک جاری و ساری ہیں اور مستقبل قریب میں اس صورتحال میں ذرا سی بھی بہتری کے رتی برابر امکانات بھی نہیں۔

لیکن یہ کہانی صرف پردے پر نمودار ہونے والوں کی ہی نہیں ۔ مسخرے پن کی انتہاوں کو چھونے کے نئے نئے عالمی ریکارڈ بناتے ان ٹی وی چیلنز کے مالکان انھی چینلز پر نمودار ہونے والے مسخروں سے بھی دوہاتھ آگے ہیں۔ شعبہ ذرائع ابلاغ کو ایک کاروباری ادارے کی طرح چلانے کا عمل تو شروع دن سے ہی جاری تھا لیکن “آزاد” میڈیا کے نام پر جاری اس دور حاضرمیں تمام حدیں پار کی جاچُکی ہیں۔ عدلیہ اور فوج کی جنگ کے دوران حاصل ہونے والی پذیرائی نے ذرائع ابلاغ کے ستاروں اور بالخصوص ان اداروں کے مالکان کے اذہان میں یہ سوچ مرتبت کر دی ہے کہ اب منافع بخش کاروبار چلانے کے ساتھ ساتھ وہ ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل کرنے پر بھی قادر ہوچکے ہیں۔ اسی سوچ کے زیراثر ہمارا یہ میڈیا گزشتہ دورحکومت کے دوران ہرسہ ماہی میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو گھر بھیجتا رہا ۔ اگرچہ انھیں ہردفعہ اپنی اس کوشش میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا لیکن ہر ناکامی کے ساتھ ہی اگلی قسط کے پیش منظر کا آغاز کیا جاتا رہا ۔اگر کچھ نہیں کیا تو وہ تھا اپنی گذشتہ غلطیوں کا اعتراف اور شرمندگی کا اظہار۔ یہ اسی سوچ کا ہی نتیجہ تھا کہ یہی ذرائع ابلاغ “خفیہ ہاتھوں” کی مدد سے بال و پر حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف “تبدیلی کے نشان عمران خان” کے نام پر ملک میں “تبدیلی چُورن” بیچنےکی کوششوں میں مصروف رہے اور بالآخر اسے انتخابات جتوانے کے لیے ایک پارٹی بن کر سامنے آگئے۔ آج بھی 2013 کے انتخابات کے دوران پاکستان تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں کو میڈِیا میں ملنے والی پذیرائی کا تناسب دیکھیں اور پھر اانتخابات کے نتائج دیکھیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ ہماری عوام کے اندر میڈیا کس قدر حلقہ اثر رکھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ان نتائج سے سبق حاصل کرنے کی بجائے ہمارے یہ ذرائع ابلاغ کچھ ہی عرصے کے بعد ایک نئی سازش کا حصہ بنے نظر آتے ہیں جس کی تازہ ترین قسط لندن پلان کی تیاری اور اس پر علمدرآمد کے دوران میڈیا کے کردار کی صورت میں سامے آئی۔ آج ہرپاکستانی بڑے واشگاف الفاظ میں بتا سکتا ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ اس ساری “رام کتھا” کے دوران اپنا وزن کس کے پلڑے میں ڈالے بیٹھے تھے۔

لیکن ذرا ٹھہریے ۔۔۔ کیا یہ قصہ صرف اپنا وزن کسی ایک گروہ کے پلڑے میں ڈالنے تک ہی محدود تھا ؟ اس کا جواب بالکل سادہ اور واضح ہے کہ نہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ ناصرف پوری آب و تاب کے ساتھ اس سازش کا حصہ بنے نظرآئے بلکہ بات کُھلنے پر معلوم ہوا کہ وہ تو اس سازش کی تیاری میں بھی ملوث تھے۔ لیکن اس بات کا احاطہ کرنے کا آغاز لندن پلان سے بھی کچھ عرصہ قبل سے کرنا پڑے گا۔

عمران خان پاکستانی ذرائع ابلاغ کے لیے ایک انتہائی محبوب سیاستدان ہیں اورآج سے نہیں بلکہ اس وقت سے ہیں جب موصوف کوان کے مخالفین ایک تانگہ پارٹی اور معمولی کپتان کے نام سے یاد کرتے تھے۔ 2009 کے موسم گرما کے بعد جب جنرل احمد شجاع پاشا کے آشیرواد سے انھیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے نئے مہرے کے طور پر متعارف کروانا شروع کیا گیا تو اس میں بھی سب سےاہم کردار اسی ذرائع ابلاغ کا تھا ۔ ہرروزمختلف ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر وہ تین تین گھنٹے تک جلوہ نما ہوتے رہے اور انتہائی دوستانہ ماحول میں ان سے کیےجانے سوالات کے زیراثر پاکستانی عوام تک ان کا پیغام پہنچایا جاتا رہا۔ عمران خان کے جلسوں کی کوریج اتنی جانفشانی سے کی جاتی رہی کہ کرسیاں لگنے سے کرسیاں اٹھنے تک ہرچھوٹی سے چھوٹی بات بھی بریکنگ نیوز بنتی رہی۔ جلسوں کے دوران یونین کونسل رہمناوں سے لے کر عمران خان کی تقریرتک لمحہ بہ لمحہ رواں نشریات چلتی۔ جبکہ دوسری جماعتوں کے جلسوں کی کوریچ کچھ اس انداز میں کی جاتی کہ ان جماعتوں کے صدور کی تقاریر بھی ٹکڑوں میں بانٹ کر دکھائی جاتی۔ یہی ذرائع ابلاغ تھے جنہوں نے عمران خان کو انتخابات جتوانے کے لیے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔انتخابی مہم سے لے کر پولنگ ختم ہونے تک ٹی وی چینلز نے کچھ ایسا سماں باندھا کہ جیسے تحریک انصاف کے علاوہ اس ملک میں کوئی دوسری جماعت انتخابی عمل میں حصہ دار ہی نہ ہو۔ ممکن ہے ہم جیسے لوگوں کی بات پر کوئی یقین نہ کرتا۔ لیکن یہ تو حالات نے کچھ ایسا رخ اختیار کرلیا کہ عمران خان اور ان کے سب سے بڑے حمایتی چینل جیونیوز میں ٹھن گئی۔ وجوہات ایک سے زیادہ تھیں لیکن عمران خان کو حکم ہوا کہ کہ جنگ گروپ غدار ہے اور سدا کے اس بچے جمورے نےاس جنگ میں کودنے کے لیے ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا۔ انہی دنوں میں جیو نیوز کے اپنے جغادیوں نے ہی یہ بات کھول دی کہ کس طرح میرشکیل الرحمان نے اپنے ادارے کو واضح ہدایات دی ہوئی تھیں کہ ملک میں تبدیلی لانے کے لیے عمران خان کی حمایت کی جائے۔

اب آتے ہیں لندن پلان نامی اس سازش کی طرف جس پر عمل درآمد کا خمیازہ ہرپاکستانی نے بھگتا ہے۔ آج پاکستان کا بچہ بچہ بڑی آسانی سے بتا سکتا ہے کہ اس سازش پر علمدرآمد کے ایام کے دوران پاکستانی میڈیا کس طرف کھڑا تھا۔ لیکن یہ تو تصویر کا وہ رُخ ہے جو کہ پردے دکھائی دے رہا تھا۔ پردے کےپیچھے بھی ایسی ہی کہانیوں کے انبار ہیں۔ جس طرح میڈیا سے وابستہ لوگ اس سازش کی تیاریوں کے سلسلے میں ہونے والی ملاقاتوں اور اس کا سکرپٹ لکھنے کے عمل تک میں شامل تھےاسی طرح اس سازش کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور اس ناکام لانگ مارچ اور دھرنے کو طوالت بخشنے میں بھی میڈیا کا ہی کردار سب سے نمایاں تھا۔ دھرنوں کے دوران میڈیا کے بڑے بڑے جغادریوں کو کنٹینروں کے اندر تک رسائی حاصل تھی۔ تمام سرگوشیاں ، پیغام رسانیاں اور ہونے والے فیصلوں سے باخبر ہونے کے باوجود بھی یہ تمام لوگ معاملے کا وہی رُخ عوام کے سامنے لاتے جس کا انھیں حُکم تھا۔ یہ پاکستان کے نیوزچینلز ہی تھے جن کی بدولت اپنے آغاز سے قبل ہی ناکامی سے دوچار ہونے والا لانگ مارچ و دھرنا قائم رکھا جاسکا – اس سلسلے میں سب سے گھناونا کردار دنیا نیوز، اے آر وائے نیوز، ایکسپریس نیوز اور سماء نیوز کا رہا۔ لوگوں کی مایوس کُن حد تک شرکت پر خالی جگہیں چُھپا کر پردہ ڈالنا ہویا پھر دھرنا گروپ کی چیرہ دستیوں اور آئین شکنیوں کے حق میں دلائل کے انبار لگانا ہوں، ہرروز نت نئی جھوٹی خبریں تراشنی ہوں یا پھر تیس اگست کی رات ہونے والے ہنگاموں کے دوران گمنام لاشوں کو جنم دینا ہو،عوامی مینڈیٹ پر شبخون مارنے والوں کو انقلابی ثابت کرنا ہو یا پھر قومی اداروں پر حملہ آوروں کو آزادی کے گمنام سپاہی ثابت کرنا ہو ۔۔۔ غرض کہ کون سا ایسا وہ فعل ہے جو کہ سرانجام نہ دیا گیا صرف اس لیے کہ اس سازش کے بطن سے ایسی تبدیلی کو جنم دیا جاسکے جس کا سبق انھیں رٹا دیا گیا تھا۔ یہ میڈیا چینلز وزیراعظم اور منتخب عوامی نمائندوں کی بات عوام تک پہنچانے سے تو کتراتے رہے لیکن کپتان کے جلسوں کے لیے بیوٹی پارلرکا رُخ کرتی اور کپتان کو شادی خانہ آبادی کے پیغامات پہنچاتی لڑکیوں کے بیانات انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ نشر کرتے رہے۔ دھرنوں کے ابتدائی دنوں کا سماں تو کچھ ایسا ہوتا تھا کہ صبح سے شام تک حکومت مضبوط دکھائی دیتی لیکن جیسے ہے “مجاہد” اینکر اور ان کے ہمنوا تجزیہ نگار پردوں پر نمودار ہوتے، ایسی منظرکشی کی جاتی کہ جیسےصبح ہونے سے پہلے پہلے حکومت رخصت ہوچکی ہوگی۔ یہی “مجاہد” اینکر اور ہمنوا تجزیہ کار گروپ ایک طرف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پر کپتان و شیخ الاسلام کے حق میں انتہائی بے شرمی کے ساتھ مہیم چلانے میں مصروف پائے گئے تو دوسری طرف ایسی خبریں تراشتے نظر آئے جن سے یہی تاثر ملتا کہ پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت نہ ہوئی بلکہ اطالوی مافیا کا کوئی گروہ ہوگیا جو کہ قتل و غارت کو تیار بیٹھا ہے۔ سب سے دلخراش منظر تو وہ تھا جب تمام ہتھکنڈے ناکام ہوتے دیکھ کر وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات سے یہ خبرتراشی گئی کہ آرمی چیف نے وزیراعظم پاکستان کو مستعفی ہونے کا مشورہ دےدیا ہے۔ ان دنوں پسِ پردہ کیا کہانیاں چل رہی تھیں، اس بارے میں ایکسپریس ٹریبیون کی نمائندہ نیہا انصاری کا وہ مضمون پڑھ لینا ہی کافی ہوگا جو انھوں نے ایک غیرملکی جریدے فارن پالیسی کے لیے لکھا تھا ۔ نیہاانصاری اپنے اس مضمون میں ایکسپریس نیوز کے اندر جاری معاملات کا آنکھوں دیکھا احوال بڑی تفصیل کے ساتھ لکھ چُکی ہیں کہ کس طرح فوجی خُفیہ ادارے آئی ایس آئی کے لوگ فیصلے کررہے تھے کہ کونسی تصویر کس زاویے سے شائع کی جائیگی اور کونسا بیان ہیڈلائن کے طور پر جگہ بنائے گا۔

ظاہر ہے یہ عنایتیں بے سبب تو نہ تھیں۔ یہ تالی دونوں ہاتھوں سے بج رہی تھی۔ ان عنایتوں کے پیچھے “حُکم” کے علاوہ وہ بھاری معاوضے بھی موجود ہیں جس کی وضاحت کے لیے صرف چند مثالیں ہی کافی ہونگی۔ 30 اکتوبر 2011 کا مینارپاکستان پرمنعقد ہونے والا جلسہ اب پاکستانی تاریخ کا حصہ ہے۔ ایک جلسے کے بل بوتے پر پورے ملک کی سیاسی تاریخ کو الٹ پلٹ کر رکھ دینےکا پیغام دینے والے ٹی وی چینلز نے اس جلسے کے لیے بے پناہ اشتہارات چلائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صف اول کے چینل شام کے مقبول اوقات کار میں ایک منٹ کا اشتہار چلانے کے ایک لاکھ روپے سے زیادہ معاوضہ وصول کرتے ہیں اور یہاں تو اس جلسے اور اس جیسے دوسرے جلسوں کے اشتہارات سینکڑوں دفعہ چلے۔ اس جلسے کے بعد کہانیاں زبان زد عام ہوئیں کہ اس جلسے پر کم از کم ستر کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ اسی ماڈل کو اپناتے ہوئے جب علامہ طاہر القادری ، سیاست نہیں ریاست بچاو کا نعرہ لے کر، لاہور میں تحریک انصاف سے بھی بڑا جلسہ کررہے تھے تو ان کی جانب سے اس جلسے کے لیے اسی کروڑ روپے پھونکے گئے۔ بات بڑھتی چلی گئی اور جب عمران خان نے عام انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کی سونامی میں نئی روح پھونکنے کی نیت سے 23 مارچ 2013 کی شام مینارپاکستان پر دوبارہ سے ڈیرہ لگایا تو اب کی بار ایک ارب روپوں سے زائد کی کہانی سامنے آئی۔ اس جلسے کے لیے ٹی وی چینلز کو اشتہارات کے آرڈر میں اتنی فراخدلی دکھائی گئی کہ ٹی وی چینلز کا ائیر ٹائم کم پڑگیا۔ معاوضے پہلے ہی ادا کیے جاچُکے تھے۔ بعض چینلز پر تو یہ لطیفہ بھی ہُوا کہ گنتی پوری کرنے کی نیت سے اشتہارات جلسےکے بعد بھی دو دن تک دکھائے جاتے رہے تاکہ وصول شدہ رقم پر کوئی تنازعہ نا ہو۔

ایسا ہی کچھ عالم لندن پلان کی سازش پر عملدرآمد کے دوران بھی تھا۔ ملک کے “صف اول” کے چار چینلز واضح ہدایات کے تحت اس دھرنا سازش سے انقلاب برآمد کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے تو اس کے پیچھے وہ واضح ہدایات تھیں جو خفیہ ہاتھوں سے انہیں مل رہی تھیں۔ لیکن اس کے بدلے میں انھیں دوطرح سے نوازا جارہا تھا۔ اس نیازمندی کا انعام انھیں بے بہا اشتہارات کی صورت میں تومل ہی رہا تھا۔ اربوں روپوں کی مالیت کے اشتہارات ان چینلز کو دیے گئے جس کے منافع سے ان اداروں کے مالکان نے اپنے کھیسے بھرنے میں ذرا دیر نہ لگائی۔ دوسرا اہم ترین انعام چند دوسرے درجے کے چینلز کو صف اول کا چینل بنا کر دیا گیا۔ جیو نیوز شروع سے ہی پاکستان کا سب سے مقبول ترین چینل رہا ہے۔ اسی لیے اس کے ناظرین اور اس کی بنیاد پر اسے ملنے والے اشتہارات میں جیوکا حصہ باقی چینلز سے کہیں زیادہ تھا۔ لیکن پھر حامد میر پر حملہ ہوا اور وہ چھ گولیاں کھا کر ہسپتال میں زندگی اور موت کے درمیان پھنس کر رہ گئے۔ اس کے نتیجے میں جو صورتحال پیدا ہوئی اسے بنیاد بنا کر جیونیوز کو غداری کی سند تھمادی گی۔ کیبل آپریٹرز کو باقاعدہ ہدایات دی گئیں کہ جیونیوز ملک کے کسی حصے میں نظر نہ آئے۔ لہٰذا جنیونیوزتو غائب ہوا ہی ہوا ساتھ میں جنگ اخبار کی گڈیاں بھی شعلوں کی نظر ہوتی رہیں۔ اپنی بقاء کو لاحق خطرے سے دوچار حکومت بیچ بچاو کرنے میں مصروف رہی لیکن ڈنڈا فتحیاب رہا۔ دوسری طرف اشتہارات میں جنگ گروپ کے حصے کا رخ بھی ان نیازمند چینلز کی جانب مڑگیا۔ جیونیوز کے غائب ہونے کے بعد ناظرین کے پاس باقی چینلزدیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا اور یہ دوسرے درجے کے چینلز اب “مقبول ترین ” چینلز بن گئے۔ دنیا اور ایکسپریس نامی اخباروں کی بِکری میں اضافہ ہوتا رہا۔ رہی سہی کسر کسر دھرنوی گروپ کو عطاکردہ “مجاہدوں” نے جیونیوز پر پتھراو کرکےکرکے نکال دی۔ لیکن اس تمام معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ حامد میر تو منظر نامے سے غائب ہوئے ہی ہوئے لیکن اس حملے نے دوسرے جغادریوں کو بھی نیازمندی کا ایسا پیغام دیا کہ میڈیا کے تمام اینکرز آج تک اس نیازمندی سے انکار کرنے کی ہمت اکٹھی نہیں کرپارہے۔ نجم سیٹھی صاحب ایسے ہی کسی انجام سے دوچار ہونے کی بجائے عین وقت پر لندن میں جا کر روپش ہوگئے اور تب تک دوبارہ دکھائی نہ دیے جب تک انھیں 28 اگست کے روز ہونے والی پیشرفت کی خبر نہ مل گئی۔

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے اندرمیڈیا ہمیشہ سے ہی ایک مافیا کی طرح کام کرتا رہا ہے۔ کسی ایک میڈیاگروپ کا مسئلہ ہمیشہ سے ہی پورے میڈیا کا مسئلہ بنتا رہا ہے چاہے ان کا موقف اصولی طور پر کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو۔ لیکن جیونیوز کے ساتھ ہونے والا ہاتھ ثابت کرتا ہے کہ وہ مافیا اب اس انداز میں قائم نہیں رہا۔اگرچہ مالی فوائد ہمیشہ سے ہی مقدم رہے ہیں لیکن جب بات اپنے مادی فوائد کی ہوگی تو ذرائع ابلاغ کا یہ مافیا ہرقسم کا اصول تج کرنے میں پہلےبھی دیر نہ لگاتا تھا لیکن اب تو اپنی برادری کے بڑے بھائی کو بھی کسی گدھ کی طرح نوچنے میں بھی ذرا دیر نہ لگائی گئی۔ میڈیا کی اس ساری رام کتھا میں مادیت پر اس قدر نظر تھی کہ دھرنوں کے آغاز کے دنوں میں عمران و قادری کی تقریریں شام کے مقبول اوقات کے دوران ہوتی تھیں۔ لیکن ان تقریروں کے اوقات کار نے میڈیا کے مقبول ترین وقت کے دوران نشر ہونے والے پروگراموں کے اوقات کار تہس نہس کرکے رکھ دیے۔ چنانچہ مالکان کے گروہ نے دھرنا گروہ کو صاف الفاظ میں پیغام پہنچادیا کہ ان کی تقریریں ہمارے لیے نقصان کا ساماں پیدا کررہی ہیں۔ جس کے بعد دھرنا گروہ نے انتہائی سعادت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تقریروں کے اوقات کار میں یوں تبدیلی کرلی کہ علامہ طاہرالقادری کی انقلابی تقریر آٹھ بجے تک مکمل ہوجاتی ۔ اس کےبعد پرائم ٹائم کے پروگرام شروع ہوجاتے اور جیسے ہی پرائم ٹائم کے پروگرام اپنی تکمیل کی طرف جارہے ہوتے تو کپتان اپنے جنون کے ساتھ تقریر کرنے کو نمودار ہوجاتا۔ یوں اس تمام گروہ نے ہنسی خوشی گزارہ کرنا سکیھ لیا۔ لیکن وقت سدا ایک جیسا کہاں رہتا ہے۔ دھرنے ختم ہوئے تو میڈیا کے ہاتھوں سے فی الوقت ایک مستقل گاہک نکل گیا۔ اس کے جواب میں میڈیا کے چند “مجاہد” اینکروں اور ان اداروں کے مالکان نے کیا کیا، یہ ایک الگ کہانی ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ لندن پلان کی سازش میں میڈیا نے اس ستون کا کردار کا نبھایا جس نے اس تمام سازش میں روح پھونکنے کا فریضہ انجام دیا۔ یہ میڈیا ہی تھا جو روزانہ کی بنیاد پر اس کہانی کے تانے بانے بُنتا رہا۔ جب پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس جاری ہوتا تھا تو دونوں قائدین انقلاب اس کے اختتام کا انتظار کرتے رہتے ۔ سانحہ کارساز کی یاد میں منعقدہ جلسے کی آڑ میں جب پیپلزپارٹی نے بلاول بھٹو کو سیاست کے اندرمتعارف کروایا تو دونوں قائدین ان کی تقریرکے اختتام کے انتظار میں بیٹھے مکھیاں مارتے رہے۔ وہ قافلہ جسے ملک کو انقلاب اور آزادی دلانے کا فریضہ سونپ کر اسلام آباد کی طرف دھکیلا گیا تھا وہ میڈیا کے کیمروں کا محتاج بن کر رہ گیا اور میڈیا نے اس محتاجی سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اسی لیے میر ناقص رائے میں لندن پلان اگر سراپا شر تھا ۔۔۔۔۔ تو پاکستانی میڈیا اس کا محورِ شّر تھا

**********************************

یہ منظر تھا ڈان نیوز کا اور مہر بخاری کے مہمانوں میں شامل تھے عمر چیمہ اور ارشد شریف

مہر بخاری : عمرچیمہ صاحب اگر آپ کا ادارہ ایک سیاسی جماعت کو نشانہ بنا رہا ہے یا اپنا ایک موقف لیے ہوئے بیٹھا ہے ایک ادارے کے خلاف اور اس کے جواب میں دیگر چینل آپ کو نشانہ بنارہے ہیں ۔ اس سارے عمل میں صرف ایک چیز قربان ہورہی ہے اور وہ ہے سچ اور غیرمتعصبانہ رپورٹنگ۔

[ یہ سوال عمر چیمہ سے کیا گیا لیکن ارشد شریف دخل اندازی کرنا شروع ہوگئے]

ارشد شریف : مہر کون سی متعصب رپورٹنگ ہورہی ہے ، مجھے کوئی ایک مثال دے دیں دنیا نیوز کی کوئی۔

مہربخاری : ارشد آپ لوگ آج مہم چلارہے تھے افتخار احمد کے خلاف ، نجم سیٹھی کے خلاف اور دیگر لوگوں کے خلاف

ارشدشریف: کوئی مہم نہیں چلا رہے تھے۔ مجھے بتائیں افتخار احمد وہاں نائب صدر ہیں کہ نہیں ہیں پی ایچ اے ؟

مہربخاری: آپ نے ان کو موقع دیا جواب دینے کا؟

ارشد شریف : بالکل دیا جی ، رپورٹر نے کئی دفعہ کوشش کی رابطہ کرنے کی۔

عمر چیمہ : مجھے بھی بات کرنے دیں نا۔ یہ جو صاحب ہِیں ان سے کہیے کہ اپنی اپنی باری پے بات کریں۔ مہر آپ نے بالکل درست بات کی ہے کہ سچ سب سے پہلے قربان ہورہا ہے۔

اسی دوران ارشد شریف ایک بار پھر مُخل ہوتے ہیں اور دنگل کا آغاز ہوجاتا ہے۔ جن چند جُملوں کی سمجھ آتی ہے ان کا سادہ الفاظ میں یہی مطلب ہوتا ہے کہ تم غدار ہو۔ تم ٹٹوّ ہو۔ تم تو صحافی ہی نہیں۔ تمہاری وجہ سے تمہارا ادارہ مشکل میں ہے وغیرہ وغیرہ

ڈان نیوز کے پروگرام نیوزآئی کے 14 مئی 2014 کے دن نشرہونے والے پروگرام سے اقتباس

**********************************

پسِ تحریر: لندن پلان کی ناکامی کے پیچھے چُھپی وجوہات کا احاطہ اگلی نشست میں کیا جائیگا جو کہ اس سلسلے کی آخری قسط ہوگی

To Be Continued

London Plan – 1

London Plan – 2

London Plan – 3

London Plan – 4

London Plan – 5

MIQ2

About: The Author:

Mudassar Iqbal is an IT Professional serving abroad with a passion for politics and can be reached at@danney707 on Twitter

 

Overcoming Energy Crisis In Pakistan

$
0
0

OVERCOMING ENERGY CRISIS IN PAKISTAN

As of today, Pakistan faces average electricity shortage of about 4, 000 – 6, 000 Megawatts per day and there is no solution to this problem in sight in near future. Although, the government says and predicts that it will overcome this shortage by 2017 but on the basis of track record of our civilian governments, this seems pretty farfetched.

The government claims that it has started several mega projects to overcome power shortage in the country but a bird’s eye view shows that perhaps the government thinks that construction of metros, roads, bridges, highways and motorways will generate electricity or it will somehow make consumers consume less electricity. For example, due to construction of orange line metro train will make Lahoris travel more on metro and stay less at home, thus will have considerable effect on electricity consumption as TVs, lights will remain switched off and will help in reduction of power shortage.

This is evident from Land slide victory of ruling party from Rawalpindi District in local bodies elections as there is considerably less load shedding in the said district after construction of Rawalpindi – Islamabad Metro as Pindi boysis spend more time in Centaurus Mall Islamabad and less time in Pindi at their homes. Since, youth is about 50% population of Pakistan, just consider the amazing effect of 50% of population enjoying cheap metro rides, wasting less time in watching utterly useless rubbish TV News Talk shows criticizing government for its inability to overcome the subject crisis, tax hike and saving them from mental torture which they unconsciously undergo when they listen to daily live speeches/media talks of Imran Khan. Same can be the case with Multan after completion of Multan Metro Project.

Boys spending more time outside will also enhance security of girls. How? When there will be a large number of boys’ groups voluntarily available to accompany the girls from metro stations to their homes, it will discourage the criminals of the area and crimes like purse snatching will reduce exponentially. This will also strengthen the eastern relationships and values as every girl will become Bhabhi of at least 5 -6 guys. So when there will be 5 -6 guys to take care of and protect their Bhabhi, which idiot will think to tease the lady?

Now, coming back to the point of Government’s tall claims of increase in power Generation capacity and its failure to deliver to do the same in its current tenure of two and half years. Every other day we see some politician inaugurating some mega power project in some far off area of the country, but later this project is stopped which is never reported. The major examples of these are Panjgur Hydro Power Project of 700 Megawatts, Jacob Abad Cold Recycling Hydro Power Project and Sibbi Bio Gas Power Project. Munda Dam Project has also been cancelled along with Kurri Thermal Power Project.
The Government has also failed miserable in managing the projects started by previous governments. The biggest example of which is NandiPur combined cycle power project, which has been proven a dead horse from time to time again except for the twitter time lines of a few die hard PMLN supporters such as Dr. Faisal Ranjha and co. This combined Cycle Power Plant is more irrelevant to energy crisis in Pakistan than Combined Cycle of Chauhdary Shujaat Hussain and Chauhdary Pervaiz Elahi of Pakistani Poltics.

Neelum – Jehlum Power Project seems to have become as ageless and timeless as Neelum Munir since it will take ages to complete and start production. The completion time of Tarbela extension is creating equal to more headache to government than extension of Chief Army Staff General Raheel Sharif. Mangla Upraising has also become Manglik for the Government. Thar Coal Power project seems to be on the footsteps of Sindh Government especially Chief Minister Sindh Qaim Ali Shah, inefficient and always in deep slumber.

The So-Called experienced team of Prime Minister Nawaz Sharif has once again failed miserably which is also evident from failure to utilize the expertise of physicists like Dr. Samar Mubarak Mand in the field of metallurgy in Chakwal Gold & Copper mines and of Dr. Pervez Hoodboy in the field of religion. If the services of both these Gentlemen were used by wisely Pakistan would have become a religiously tolerant and metallurgically advanced country if nothing else.

Similarly, Pakistan failed to utilize the expertise of Dr. Abdul Qadeer Khan in Gynecology which created more energy demands and thus became a catalyst in power shortage in country. Right person for the right job remains a dream in Pakistan to date.

So what’s the solution to overcome this energy crisis in Pakistan?

This is the critical time in our history where Parliament must come forward to play its role. Pakistan Parliament must play its role of legislating body and amend the 2nd Law of Thermodynamics to bring the system in equilibrium and end its isolation just like Pakistan helped in ending China’s isolation from the rest of world. It must decree that since the isolation of the system is ceased and it is declared to be in equilibrium hence its entropy must not increase in any given circumstances except for the Lal Masjid in the heart of Pakistani Capital. Parliament can seek consultancy from subject specialists like Hamid Mir and Co. for this amendment.

If the Parliament fails to amend 2nd Law of Thermodynamics, which once amended can open the flood gates of free/cheap energy, water fueled engines etc, then it is requested that army should takeover and COAS should amend this law under Provisional Constitutional Order (PCO). The draft of said amendment can be prepared under the guide lines of Honest and Dignified People like Mubashar Luqman, Dr. Shahid Masood, Dr. Moeed Pirzada, Dr. Danish, Ahmed Quraishi, Arshad Sharif, Kamran Shahid, Asad Kharal, Arif Hameed Bhatti, Jasmine Manzoor and Dr. Danish.

 

 

About the Author: Jawad Maqsood Baig is an Engineer by profession having an eye on politics. Can be found on Twitter @ThePreCambrian

jawadmax

ملتان کی محفلیں

$
0
0

Latest Column of Rauf Klasra | 7th June 2017

ہم سا ہو تو سامنے آئے

$
0
0

Latest Column of Gul E Nukhais Akhtar | 7th June 2017

ٹرمپ کی باجو کی گلی

$
0
0

Latest Column of Nusrat Javed | 9th June 2017

Viewing all 58 articles
Browse latest View live