<
لندن پلان – حصہ ششم
یہ منظر تھا جیو نیوز کا اور حامد میر کے مہمان تھے چوہدری نثارعلی خان
عمران خان کے ایک پرانے انٹرویو کا ایک حصہ دکھانے کے بعد حامد میر نے سوال کیا کہ عمران خان صاحب نہ صرف ون ٹو ون مقابلہ کرنا چاہتے ہیں نوازشریف کا الیکشن میں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ٹی وی پروگرام میں بھی ایک مقابلہ ہو۔ تو نوازشریف صاحب کیوں ان کے مقابلے پر نہیں آتے ؟
چوہدری نثار : حامد میر صاحب میں آپ سے سرِعام گِلہ نہیں کرتا۔ کبھی کبھی کرتا ہوں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ آپ ان [عمران خان] پر فرینڈلی باولنگ کرتے ہیں۔
جیونیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک کے 19 دسمبر 2012 کے دن نشر ہونےوالے پروگرام سے اقتباس
**********************************
یہ منظر تھا لندن میں واقع ہیتھرو ائیرپورٹ کا اور اخباری نمائندوں سے بات کررہے تھے نوازشریف
صحافی: وزیراعظم ہونے کے ناطے آپ ، جذبہ خیرسگالی کے طور پے ، عمران خان صاحب کو ملنے کے لیے بنی گالہ گئے تھے۔ تو ابھی بھی آپ ان کو ذاتی طور پہ دعوت دیں کہ وہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں اور آپ ان کے تحفظات دور کرسکیں
نوازشریف: کونسا چینل ہے آپ کا ؟
صحافی : ایکسپریس نیوز
نوازشریف : آپ ذاتی طور پر بات کررہے ہیں یا چینل کی طرف سے ؟
نوازشریف کا اتنا کہنا تھا کہ اردگرد کھڑے تمام لوگ اس بات میں چھپے طنز کو سمجھتے ہی قہقہے لگا کر ہنسنے لگے۔
نوازشریف کی 14 نومبر 2014 کے دن لندن میں میڈیا کے نمائندوں سے ہونے والی بات چیت سے اقتباس
**********************************
یہ منظر تھا آج نیوز کا اور ابصارعالم کے مہمان تھے خواجہ محمدآصف
خواجہ آصف : کمرشلزم میں میڈیا اس قدر آگے نکل گیا ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ اچھا ۔۔۔ یار یہ چیزبِکتی ہے، سوِل ملٹری تعلقات میں خرابی آرہی ہے، اس کو بیچو۔ ملک کا کیا نقصان ہوتاہے ، کوئی اس سے غرض نہیں۔ لیکن فرض کریں کہ میں نے کوئی ایسا نام لے دیا ہے جو ان کو وارے میں نہیں ہے، مثال کے طور پر میں نے اگلے دن ایک چینل پر ایک نام لیا ہے جو میں نے ابھی بھی نام لیا ہے ، انھوں نے وہ حصہ ہی کاٹ دیا۔وارے میں نہیں تھا۔ وہ دوبارہ اس چکر میں نہیں پھنسنا چاہتے تھے جس میں پہلے پھنس گئے تھے۔
آج نیوز کے پروگرام باٹم لائن وِد ابصار کے 11 جولائی 2014 کو نشر ہونے والے پروگرام سے اقتباس
**********************************
خواجہ آصف جس چینل کا ذکر کررہے تھے وہ کوئی دوسرے یا درمیانے درجے کا ٹی وی چینل نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے صحافتی گروپ کا مشہورترین چینل جیونیوز ہے ۔ اسی طرح خواجہ آصف کےمذکورہ تبصرے پر قینچی چلانے والے صاحب بھی کوئی معمولی اینکر نہیں۔ پشتون روایات کے امین اور اپنے قبائلی پسِ منظرپر فخرکرتے ہوئے اپنے مخالفین کو سرِعام دھمکیاں دینے والے ان صاحب کا نام ہے سلیم صافی۔ سلیم صافی تواپنے اس عمل کی توجیہہ اس مشکل وقت کو بنا کر پیش کرتے ہیں جب جنگ گروپ کو حامدمیر پر ہونے والے حملے اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں تختہ مشق بنادیا گیا تھا لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ کیونکہ ہمارا میڈیا بھی کوئی نیک نام شعبہ نہیں۔
برصغیر کے اندر ذرائع ابلاغ تو قیامِ پاکستان سے بھی پہلے سے متحرک ہوچُکے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی پاتے گئے۔ پاکستانی تاریخ کے غالب عرصے میں عوام خبروں کے حصول کے لیے یا تو سرکاری ٹی وی کے محتاج تھے یا پھر ریڈیوپاکستان کے۔ یہاں اخبارات کی تاریخ تو ریڈیو سے بھی پرانی ہے لیکن مایوس کُن شرح خواندگی نے اس حلقےکےقارئین کی تعداد کو بھی قابو میں رکھا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ہماری تاریخ میں اخبارات بھی مکمل آزادی کا مزہ چکھنے سے قاصر ہی رہے۔ پاکستان میں آزاد میڈیا کا ہوا درحقیقت 2007 میں کھڑا ہوا۔ اگرچہ نجی ٹی وی چینلزکی ایک بڑی تعداد اس وقت تک گذشتہ کچھ برسوں کے دوران نمودارہوچکی تھی لیکن ہمارا “آزاد” میڈیاانتہائی سعادت مندی کا مظاہرہ کرتا رہا تھا۔ نوازشریف کے دوسرے دور کی رخصتی اکتوبر 1999 میں ہوئی تو ہمارے اسی “آزاد” میڈیا نے کسی چُوں چراں کے بغیر نا صرف “فاتح پاکستان” کو خوش آمدید کہا بلکہ ان کے اندر چُھپے ہوئے اس “مسیحا” کو بھی ڈھونڈھ نکالا جس سے خود جنرل پرویزمشرف بھی لاعلم تھے۔ اس دور میں صرف عطاالحق قاسمی اوراللہ بخشےعباس اطہرمرحوم ہی دو ایسی آوازیں تھیں جنہوں نے اس فوجی “انقلاب” کو آئین شکنی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے انتظامی بندوبست کو آمریت گردانا۔ باقی کی تمام صحافتی برادری طیارہ سازش کیس کی حقیقت سے مکمل واقفیت رکھنے کے باوجود بھی نوازشریف کو مجرم قرار دیتی رہی اور انھیں اسی جُرم کے تحت پھانسی کے تختے تک پہنچانے کے لیے دلائل کے انبار بھی لگاتی رہی۔ اس مُہم میں پیش پیش کوئی اور نہیں بلکہ آج کے میڈیا میں موجود صف اول کے صحافی جناب حامد میر تھے۔ جی ہاں وہی حامدمیر جن پر ہونے والے حملے نے ہمارے “آزاد” میڈیاکو تابعداری کی اس معراج پر پہنچادیا ہےکہ جس کا تصورکرنا بھی آج سے چند برس پہلے تک مُحال تھا۔ اگلے آٹھ برسوں تک ملک میں آمریت بھرپور قوت کے ساتھ راج کرتی رہی لیکن ہمارے “آزاد” میڈیا کے بڑے بڑے جغادریوں کو ایوانِ صدر کے اندر بیٹھا ہوا باوردی فوجی آمر صدرِ پاکستان ہی دکھائی دیا۔ کہانی میں نیا موڑ تب آیا جب این آر او کا جہاز سیاسی بحر کے ساحل پر لنگرانداز پر ہوا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی این آر او کے تحت مستقبل کے انتظامی بندوبست میں کلیدی کردار اختیار کرتے ہوئے آرمی چیف منتخب ہونے جارہے تھے اور امریکہ نے جنرل پرویزمشرف کو اپنے لیے بوجھ سمجھتے ہوئے انھیں فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ دوسری طرف جنرل مشرف عدلیہ کے ساتھ اختیارات کی جنگ چھیڑ بیٹھے تھے جوکہ جلد ہی اقتدار کی جنگ میں تبدیل ہوگئی۔اس جنگ میں ہرکسی نے اپنا اپنا حساب بے باک کیا۔ باربارکی آمریتوں سے تنگ آئے ہوئے سیاستدانوں نے اپنا وزن عدلیہ کے پلڑے میں ڈال دیا تو جنرل مشرف کو گھر بھیجنے کے خواہشمند جنرل کیانی کے اشارے پر ذرائع ابلاغ کو بھی الہام ہوگیا کہ پرویزمشرف تو ایک آمر ہیں۔ آمریت کی دیوار گررہی تھی۔ ہردوسرے عنصر کی مانند میڈیا بھی اس دیوار کو دھکا دینے والوں میں شامل ہوگیا۔ اسی ہنگام میں میڈیا ،بالخصوص، نیوزچینلز اور ان کے پردوں پر رونما ہونے والے جغادری ہیروبنتے جارہے تھے۔ شاہین صہبائی، حامدمیر، کامران خان، طلعت حسین، انصار عباسی وغیرہ جیسے کئی ایسے لوگ تھے جن کا حلقہ اثرماضی میں ملک کی ایک تہائی آبادی تک ہی محدود تھا اور یہ حلقہ بھی اخبارات کے قارئین کا تھا ۔ لیکن نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار اور ان کی ہنگاموں سے بھرپور نشریات نے نہ صرف ایسے لوگوں کو گھر گھر تک رسائی دے دی بلکہ انھیں ستاروں کی سی حیثیت عطا کردی ۔ ڈاکٹر شاہد مسعود جیسے لوگ بھی ٹی وی کے پردے پر نمودار ہوچکے تھے جن کا صحافت سے دور دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ اس چکاچوند نے پاکستان کے ہرشعبہ زندگی کے لوگوں کو ایسا مسحور کیا کہ اپنے اپنے شعبہ جات میں ناکامی سے دوچارلیکن تھوڑی بہت پہنچ رکھنے والے لوگ بھی ٹی وی کی پردے پر صحافی اور تجزیہ کار بن بیٹھے ۔ مبشرلقمان ،معید پیرزادہ ، رابی پیرزادہ اور عائلہ ملک وغیرہ ایسی ہی چند مثالیں ہیں۔ یہ تمام صورتحال ایک تماشے سی شکل اختیار کرتی گئی۔ کوئی قیامت تک کے لمحے گنتے پایا گیا تو کوئی جنات سے بات چیت میں مصروف ہوگیا۔ کوئی پارک کے اندر رومانوی جوڑے تلاش کرتا پایا گیا توکوئی خود کو اصولوں کے اعلیٰ معیار پر فائز کررہا تھا ۔ کوئی سیاستدانوں کو لڑانے میں مصروف تھا تو کوئی عجب کرپشن کی غضب کہانی لکھ رہا تھا۔ کوئی ناچ گانا دکھانے میں مصروف تھا تو کوئی پنجابی تھیٹر سےبےروزگار ہونے والے مسخروں کی مدد سے ملکی معاملات پرسیرحاصل “بحث” کرنے میں مصروف تھا۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ ناطرین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مسخروں کی سی یہ حرکات آج کے دن تک جاری و ساری ہیں اور مستقبل قریب میں اس صورتحال میں ذرا سی بھی بہتری کے رتی برابر امکانات بھی نہیں۔
لیکن یہ کہانی صرف پردے پر نمودار ہونے والوں کی ہی نہیں ۔ مسخرے پن کی انتہاوں کو چھونے کے نئے نئے عالمی ریکارڈ بناتے ان ٹی وی چیلنز کے مالکان انھی چینلز پر نمودار ہونے والے مسخروں سے بھی دوہاتھ آگے ہیں۔ شعبہ ذرائع ابلاغ کو ایک کاروباری ادارے کی طرح چلانے کا عمل تو شروع دن سے ہی جاری تھا لیکن “آزاد” میڈیا کے نام پر جاری اس دور حاضرمیں تمام حدیں پار کی جاچُکی ہیں۔ عدلیہ اور فوج کی جنگ کے دوران حاصل ہونے والی پذیرائی نے ذرائع ابلاغ کے ستاروں اور بالخصوص ان اداروں کے مالکان کے اذہان میں یہ سوچ مرتبت کر دی ہے کہ اب منافع بخش کاروبار چلانے کے ساتھ ساتھ وہ ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل کرنے پر بھی قادر ہوچکے ہیں۔ اسی سوچ کے زیراثر ہمارا یہ میڈیا گزشتہ دورحکومت کے دوران ہرسہ ماہی میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو گھر بھیجتا رہا ۔ اگرچہ انھیں ہردفعہ اپنی اس کوشش میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا لیکن ہر ناکامی کے ساتھ ہی اگلی قسط کے پیش منظر کا آغاز کیا جاتا رہا ۔اگر کچھ نہیں کیا تو وہ تھا اپنی گذشتہ غلطیوں کا اعتراف اور شرمندگی کا اظہار۔ یہ اسی سوچ کا ہی نتیجہ تھا کہ یہی ذرائع ابلاغ “خفیہ ہاتھوں” کی مدد سے بال و پر حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف “تبدیلی کے نشان عمران خان” کے نام پر ملک میں “تبدیلی چُورن” بیچنےکی کوششوں میں مصروف رہے اور بالآخر اسے انتخابات جتوانے کے لیے ایک پارٹی بن کر سامنے آگئے۔ آج بھی 2013 کے انتخابات کے دوران پاکستان تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں کو میڈِیا میں ملنے والی پذیرائی کا تناسب دیکھیں اور پھر اانتخابات کے نتائج دیکھیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ ہماری عوام کے اندر میڈیا کس قدر حلقہ اثر رکھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ان نتائج سے سبق حاصل کرنے کی بجائے ہمارے یہ ذرائع ابلاغ کچھ ہی عرصے کے بعد ایک نئی سازش کا حصہ بنے نظر آتے ہیں جس کی تازہ ترین قسط لندن پلان کی تیاری اور اس پر علمدرآمد کے دوران میڈیا کے کردار کی صورت میں سامے آئی۔ آج ہرپاکستانی بڑے واشگاف الفاظ میں بتا سکتا ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ اس ساری “رام کتھا” کے دوران اپنا وزن کس کے پلڑے میں ڈالے بیٹھے تھے۔
لیکن ذرا ٹھہریے ۔۔۔ کیا یہ قصہ صرف اپنا وزن کسی ایک گروہ کے پلڑے میں ڈالنے تک ہی محدود تھا ؟ اس کا جواب بالکل سادہ اور واضح ہے کہ نہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ ناصرف پوری آب و تاب کے ساتھ اس سازش کا حصہ بنے نظرآئے بلکہ بات کُھلنے پر معلوم ہوا کہ وہ تو اس سازش کی تیاری میں بھی ملوث تھے۔ لیکن اس بات کا احاطہ کرنے کا آغاز لندن پلان سے بھی کچھ عرصہ قبل سے کرنا پڑے گا۔
عمران خان پاکستانی ذرائع ابلاغ کے لیے ایک انتہائی محبوب سیاستدان ہیں اورآج سے نہیں بلکہ اس وقت سے ہیں جب موصوف کوان کے مخالفین ایک تانگہ پارٹی اور معمولی کپتان کے نام سے یاد کرتے تھے۔ 2009 کے موسم گرما کے بعد جب جنرل احمد شجاع پاشا کے آشیرواد سے انھیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے نئے مہرے کے طور پر متعارف کروانا شروع کیا گیا تو اس میں بھی سب سےاہم کردار اسی ذرائع ابلاغ کا تھا ۔ ہرروزمختلف ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر وہ تین تین گھنٹے تک جلوہ نما ہوتے رہے اور انتہائی دوستانہ ماحول میں ان سے کیےجانے سوالات کے زیراثر پاکستانی عوام تک ان کا پیغام پہنچایا جاتا رہا۔ عمران خان کے جلسوں کی کوریج اتنی جانفشانی سے کی جاتی رہی کہ کرسیاں لگنے سے کرسیاں اٹھنے تک ہرچھوٹی سے چھوٹی بات بھی بریکنگ نیوز بنتی رہی۔ جلسوں کے دوران یونین کونسل رہمناوں سے لے کر عمران خان کی تقریرتک لمحہ بہ لمحہ رواں نشریات چلتی۔ جبکہ دوسری جماعتوں کے جلسوں کی کوریچ کچھ اس انداز میں کی جاتی کہ ان جماعتوں کے صدور کی تقاریر بھی ٹکڑوں میں بانٹ کر دکھائی جاتی۔ یہی ذرائع ابلاغ تھے جنہوں نے عمران خان کو انتخابات جتوانے کے لیے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔انتخابی مہم سے لے کر پولنگ ختم ہونے تک ٹی وی چینلز نے کچھ ایسا سماں باندھا کہ جیسے تحریک انصاف کے علاوہ اس ملک میں کوئی دوسری جماعت انتخابی عمل میں حصہ دار ہی نہ ہو۔ ممکن ہے ہم جیسے لوگوں کی بات پر کوئی یقین نہ کرتا۔ لیکن یہ تو حالات نے کچھ ایسا رخ اختیار کرلیا کہ عمران خان اور ان کے سب سے بڑے حمایتی چینل جیونیوز میں ٹھن گئی۔ وجوہات ایک سے زیادہ تھیں لیکن عمران خان کو حکم ہوا کہ کہ جنگ گروپ غدار ہے اور سدا کے اس بچے جمورے نےاس جنگ میں کودنے کے لیے ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا۔ انہی دنوں میں جیو نیوز کے اپنے جغادیوں نے ہی یہ بات کھول دی کہ کس طرح میرشکیل الرحمان نے اپنے ادارے کو واضح ہدایات دی ہوئی تھیں کہ ملک میں تبدیلی لانے کے لیے عمران خان کی حمایت کی جائے۔
اب آتے ہیں لندن پلان نامی اس سازش کی طرف جس پر عمل درآمد کا خمیازہ ہرپاکستانی نے بھگتا ہے۔ آج پاکستان کا بچہ بچہ بڑی آسانی سے بتا سکتا ہے کہ اس سازش پر علمدرآمد کے ایام کے دوران پاکستانی میڈیا کس طرف کھڑا تھا۔ لیکن یہ تو تصویر کا وہ رُخ ہے جو کہ پردے دکھائی دے رہا تھا۔ پردے کےپیچھے بھی ایسی ہی کہانیوں کے انبار ہیں۔ جس طرح میڈیا سے وابستہ لوگ اس سازش کی تیاریوں کے سلسلے میں ہونے والی ملاقاتوں اور اس کا سکرپٹ لکھنے کے عمل تک میں شامل تھےاسی طرح اس سازش کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور اس ناکام لانگ مارچ اور دھرنے کو طوالت بخشنے میں بھی میڈیا کا ہی کردار سب سے نمایاں تھا۔ دھرنوں کے دوران میڈیا کے بڑے بڑے جغادریوں کو کنٹینروں کے اندر تک رسائی حاصل تھی۔ تمام سرگوشیاں ، پیغام رسانیاں اور ہونے والے فیصلوں سے باخبر ہونے کے باوجود بھی یہ تمام لوگ معاملے کا وہی رُخ عوام کے سامنے لاتے جس کا انھیں حُکم تھا۔ یہ پاکستان کے نیوزچینلز ہی تھے جن کی بدولت اپنے آغاز سے قبل ہی ناکامی سے دوچار ہونے والا لانگ مارچ و دھرنا قائم رکھا جاسکا – اس سلسلے میں سب سے گھناونا کردار دنیا نیوز، اے آر وائے نیوز، ایکسپریس نیوز اور سماء نیوز کا رہا۔ لوگوں کی مایوس کُن حد تک شرکت پر خالی جگہیں چُھپا کر پردہ ڈالنا ہویا پھر دھرنا گروپ کی چیرہ دستیوں اور آئین شکنیوں کے حق میں دلائل کے انبار لگانا ہوں، ہرروز نت نئی جھوٹی خبریں تراشنی ہوں یا پھر تیس اگست کی رات ہونے والے ہنگاموں کے دوران گمنام لاشوں کو جنم دینا ہو،عوامی مینڈیٹ پر شبخون مارنے والوں کو انقلابی ثابت کرنا ہو یا پھر قومی اداروں پر حملہ آوروں کو آزادی کے گمنام سپاہی ثابت کرنا ہو ۔۔۔ غرض کہ کون سا ایسا وہ فعل ہے جو کہ سرانجام نہ دیا گیا صرف اس لیے کہ اس سازش کے بطن سے ایسی تبدیلی کو جنم دیا جاسکے جس کا سبق انھیں رٹا دیا گیا تھا۔ یہ میڈیا چینلز وزیراعظم اور منتخب عوامی نمائندوں کی بات عوام تک پہنچانے سے تو کتراتے رہے لیکن کپتان کے جلسوں کے لیے بیوٹی پارلرکا رُخ کرتی اور کپتان کو شادی خانہ آبادی کے پیغامات پہنچاتی لڑکیوں کے بیانات انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ نشر کرتے رہے۔ دھرنوں کے ابتدائی دنوں کا سماں تو کچھ ایسا ہوتا تھا کہ صبح سے شام تک حکومت مضبوط دکھائی دیتی لیکن جیسے ہے “مجاہد” اینکر اور ان کے ہمنوا تجزیہ نگار پردوں پر نمودار ہوتے، ایسی منظرکشی کی جاتی کہ جیسےصبح ہونے سے پہلے پہلے حکومت رخصت ہوچکی ہوگی۔ یہی “مجاہد” اینکر اور ہمنوا تجزیہ کار گروپ ایک طرف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پر کپتان و شیخ الاسلام کے حق میں انتہائی بے شرمی کے ساتھ مہیم چلانے میں مصروف پائے گئے تو دوسری طرف ایسی خبریں تراشتے نظر آئے جن سے یہی تاثر ملتا کہ پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت نہ ہوئی بلکہ اطالوی مافیا کا کوئی گروہ ہوگیا جو کہ قتل و غارت کو تیار بیٹھا ہے۔ سب سے دلخراش منظر تو وہ تھا جب تمام ہتھکنڈے ناکام ہوتے دیکھ کر وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات سے یہ خبرتراشی گئی کہ آرمی چیف نے وزیراعظم پاکستان کو مستعفی ہونے کا مشورہ دےدیا ہے۔ ان دنوں پسِ پردہ کیا کہانیاں چل رہی تھیں، اس بارے میں ایکسپریس ٹریبیون کی نمائندہ نیہا انصاری کا وہ مضمون پڑھ لینا ہی کافی ہوگا جو انھوں نے ایک غیرملکی جریدے فارن پالیسی کے لیے لکھا تھا ۔ نیہاانصاری اپنے اس مضمون میں ایکسپریس نیوز کے اندر جاری معاملات کا آنکھوں دیکھا احوال بڑی تفصیل کے ساتھ لکھ چُکی ہیں کہ کس طرح فوجی خُفیہ ادارے آئی ایس آئی کے لوگ فیصلے کررہے تھے کہ کونسی تصویر کس زاویے سے شائع کی جائیگی اور کونسا بیان ہیڈلائن کے طور پر جگہ بنائے گا۔
ظاہر ہے یہ عنایتیں بے سبب تو نہ تھیں۔ یہ تالی دونوں ہاتھوں سے بج رہی تھی۔ ان عنایتوں کے پیچھے “حُکم” کے علاوہ وہ بھاری معاوضے بھی موجود ہیں جس کی وضاحت کے لیے صرف چند مثالیں ہی کافی ہونگی۔ 30 اکتوبر 2011 کا مینارپاکستان پرمنعقد ہونے والا جلسہ اب پاکستانی تاریخ کا حصہ ہے۔ ایک جلسے کے بل بوتے پر پورے ملک کی سیاسی تاریخ کو الٹ پلٹ کر رکھ دینےکا پیغام دینے والے ٹی وی چینلز نے اس جلسے کے لیے بے پناہ اشتہارات چلائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صف اول کے چینل شام کے مقبول اوقات کار میں ایک منٹ کا اشتہار چلانے کے ایک لاکھ روپے سے زیادہ معاوضہ وصول کرتے ہیں اور یہاں تو اس جلسے اور اس جیسے دوسرے جلسوں کے اشتہارات سینکڑوں دفعہ چلے۔ اس جلسے کے بعد کہانیاں زبان زد عام ہوئیں کہ اس جلسے پر کم از کم ستر کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ اسی ماڈل کو اپناتے ہوئے جب علامہ طاہر القادری ، سیاست نہیں ریاست بچاو کا نعرہ لے کر، لاہور میں تحریک انصاف سے بھی بڑا جلسہ کررہے تھے تو ان کی جانب سے اس جلسے کے لیے اسی کروڑ روپے پھونکے گئے۔ بات بڑھتی چلی گئی اور جب عمران خان نے عام انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کی سونامی میں نئی روح پھونکنے کی نیت سے 23 مارچ 2013 کی شام مینارپاکستان پر دوبارہ سے ڈیرہ لگایا تو اب کی بار ایک ارب روپوں سے زائد کی کہانی سامنے آئی۔ اس جلسے کے لیے ٹی وی چینلز کو اشتہارات کے آرڈر میں اتنی فراخدلی دکھائی گئی کہ ٹی وی چینلز کا ائیر ٹائم کم پڑگیا۔ معاوضے پہلے ہی ادا کیے جاچُکے تھے۔ بعض چینلز پر تو یہ لطیفہ بھی ہُوا کہ گنتی پوری کرنے کی نیت سے اشتہارات جلسےکے بعد بھی دو دن تک دکھائے جاتے رہے تاکہ وصول شدہ رقم پر کوئی تنازعہ نا ہو۔
ایسا ہی کچھ عالم لندن پلان کی سازش پر عملدرآمد کے دوران بھی تھا۔ ملک کے “صف اول” کے چار چینلز واضح ہدایات کے تحت اس دھرنا سازش سے انقلاب برآمد کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے تو اس کے پیچھے وہ واضح ہدایات تھیں جو خفیہ ہاتھوں سے انہیں مل رہی تھیں۔ لیکن اس کے بدلے میں انھیں دوطرح سے نوازا جارہا تھا۔ اس نیازمندی کا انعام انھیں بے بہا اشتہارات کی صورت میں تومل ہی رہا تھا۔ اربوں روپوں کی مالیت کے اشتہارات ان چینلز کو دیے گئے جس کے منافع سے ان اداروں کے مالکان نے اپنے کھیسے بھرنے میں ذرا دیر نہ لگائی۔ دوسرا اہم ترین انعام چند دوسرے درجے کے چینلز کو صف اول کا چینل بنا کر دیا گیا۔ جیو نیوز شروع سے ہی پاکستان کا سب سے مقبول ترین چینل رہا ہے۔ اسی لیے اس کے ناظرین اور اس کی بنیاد پر اسے ملنے والے اشتہارات میں جیوکا حصہ باقی چینلز سے کہیں زیادہ تھا۔ لیکن پھر حامد میر پر حملہ ہوا اور وہ چھ گولیاں کھا کر ہسپتال میں زندگی اور موت کے درمیان پھنس کر رہ گئے۔ اس کے نتیجے میں جو صورتحال پیدا ہوئی اسے بنیاد بنا کر جیونیوز کو غداری کی سند تھمادی گی۔ کیبل آپریٹرز کو باقاعدہ ہدایات دی گئیں کہ جیونیوز ملک کے کسی حصے میں نظر نہ آئے۔ لہٰذا جنیونیوزتو غائب ہوا ہی ہوا ساتھ میں جنگ اخبار کی گڈیاں بھی شعلوں کی نظر ہوتی رہیں۔ اپنی بقاء کو لاحق خطرے سے دوچار حکومت بیچ بچاو کرنے میں مصروف رہی لیکن ڈنڈا فتحیاب رہا۔ دوسری طرف اشتہارات میں جنگ گروپ کے حصے کا رخ بھی ان نیازمند چینلز کی جانب مڑگیا۔ جیونیوز کے غائب ہونے کے بعد ناظرین کے پاس باقی چینلزدیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا اور یہ دوسرے درجے کے چینلز اب “مقبول ترین ” چینلز بن گئے۔ دنیا اور ایکسپریس نامی اخباروں کی بِکری میں اضافہ ہوتا رہا۔ رہی سہی کسر کسر دھرنوی گروپ کو عطاکردہ “مجاہدوں” نے جیونیوز پر پتھراو کرکےکرکے نکال دی۔ لیکن اس تمام معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ حامد میر تو منظر نامے سے غائب ہوئے ہی ہوئے لیکن اس حملے نے دوسرے جغادریوں کو بھی نیازمندی کا ایسا پیغام دیا کہ میڈیا کے تمام اینکرز آج تک اس نیازمندی سے انکار کرنے کی ہمت اکٹھی نہیں کرپارہے۔ نجم سیٹھی صاحب ایسے ہی کسی انجام سے دوچار ہونے کی بجائے عین وقت پر لندن میں جا کر روپش ہوگئے اور تب تک دوبارہ دکھائی نہ دیے جب تک انھیں 28 اگست کے روز ہونے والی پیشرفت کی خبر نہ مل گئی۔
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے اندرمیڈیا ہمیشہ سے ہی ایک مافیا کی طرح کام کرتا رہا ہے۔ کسی ایک میڈیاگروپ کا مسئلہ ہمیشہ سے ہی پورے میڈیا کا مسئلہ بنتا رہا ہے چاہے ان کا موقف اصولی طور پر کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو۔ لیکن جیونیوز کے ساتھ ہونے والا ہاتھ ثابت کرتا ہے کہ وہ مافیا اب اس انداز میں قائم نہیں رہا۔اگرچہ مالی فوائد ہمیشہ سے ہی مقدم رہے ہیں لیکن جب بات اپنے مادی فوائد کی ہوگی تو ذرائع ابلاغ کا یہ مافیا ہرقسم کا اصول تج کرنے میں پہلےبھی دیر نہ لگاتا تھا لیکن اب تو اپنی برادری کے بڑے بھائی کو بھی کسی گدھ کی طرح نوچنے میں بھی ذرا دیر نہ لگائی گئی۔ میڈیا کی اس ساری رام کتھا میں مادیت پر اس قدر نظر تھی کہ دھرنوں کے آغاز کے دنوں میں عمران و قادری کی تقریریں شام کے مقبول اوقات کے دوران ہوتی تھیں۔ لیکن ان تقریروں کے اوقات کار نے میڈیا کے مقبول ترین وقت کے دوران نشر ہونے والے پروگراموں کے اوقات کار تہس نہس کرکے رکھ دیے۔ چنانچہ مالکان کے گروہ نے دھرنا گروہ کو صاف الفاظ میں پیغام پہنچادیا کہ ان کی تقریریں ہمارے لیے نقصان کا ساماں پیدا کررہی ہیں۔ جس کے بعد دھرنا گروہ نے انتہائی سعادت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تقریروں کے اوقات کار میں یوں تبدیلی کرلی کہ علامہ طاہرالقادری کی انقلابی تقریر آٹھ بجے تک مکمل ہوجاتی ۔ اس کےبعد پرائم ٹائم کے پروگرام شروع ہوجاتے اور جیسے ہی پرائم ٹائم کے پروگرام اپنی تکمیل کی طرف جارہے ہوتے تو کپتان اپنے جنون کے ساتھ تقریر کرنے کو نمودار ہوجاتا۔ یوں اس تمام گروہ نے ہنسی خوشی گزارہ کرنا سکیھ لیا۔ لیکن وقت سدا ایک جیسا کہاں رہتا ہے۔ دھرنے ختم ہوئے تو میڈیا کے ہاتھوں سے فی الوقت ایک مستقل گاہک نکل گیا۔ اس کے جواب میں میڈیا کے چند “مجاہد” اینکروں اور ان اداروں کے مالکان نے کیا کیا، یہ ایک الگ کہانی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ لندن پلان کی سازش میں میڈیا نے اس ستون کا کردار کا نبھایا جس نے اس تمام سازش میں روح پھونکنے کا فریضہ انجام دیا۔ یہ میڈیا ہی تھا جو روزانہ کی بنیاد پر اس کہانی کے تانے بانے بُنتا رہا۔ جب پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس جاری ہوتا تھا تو دونوں قائدین انقلاب اس کے اختتام کا انتظار کرتے رہتے ۔ سانحہ کارساز کی یاد میں منعقدہ جلسے کی آڑ میں جب پیپلزپارٹی نے بلاول بھٹو کو سیاست کے اندرمتعارف کروایا تو دونوں قائدین ان کی تقریرکے اختتام کے انتظار میں بیٹھے مکھیاں مارتے رہے۔ وہ قافلہ جسے ملک کو انقلاب اور آزادی دلانے کا فریضہ سونپ کر اسلام آباد کی طرف دھکیلا گیا تھا وہ میڈیا کے کیمروں کا محتاج بن کر رہ گیا اور میڈیا نے اس محتاجی سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اسی لیے میر ناقص رائے میں لندن پلان اگر سراپا شر تھا ۔۔۔۔۔ تو پاکستانی میڈیا اس کا محورِ شّر تھا
**********************************
یہ منظر تھا ڈان نیوز کا اور مہر بخاری کے مہمانوں میں شامل تھے عمر چیمہ اور ارشد شریف
مہر بخاری : عمرچیمہ صاحب اگر آپ کا ادارہ ایک سیاسی جماعت کو نشانہ بنا رہا ہے یا اپنا ایک موقف لیے ہوئے بیٹھا ہے ایک ادارے کے خلاف اور اس کے جواب میں دیگر چینل آپ کو نشانہ بنارہے ہیں ۔ اس سارے عمل میں صرف ایک چیز قربان ہورہی ہے اور وہ ہے سچ اور غیرمتعصبانہ رپورٹنگ۔
[ یہ سوال عمر چیمہ سے کیا گیا لیکن ارشد شریف دخل اندازی کرنا شروع ہوگئے]
ارشد شریف : مہر کون سی متعصب رپورٹنگ ہورہی ہے ، مجھے کوئی ایک مثال دے دیں دنیا نیوز کی کوئی۔
مہربخاری : ارشد آپ لوگ آج مہم چلارہے تھے افتخار احمد کے خلاف ، نجم سیٹھی کے خلاف اور دیگر لوگوں کے خلاف
ارشدشریف: کوئی مہم نہیں چلا رہے تھے۔ مجھے بتائیں افتخار احمد وہاں نائب صدر ہیں کہ نہیں ہیں پی ایچ اے ؟
مہربخاری: آپ نے ان کو موقع دیا جواب دینے کا؟
ارشد شریف : بالکل دیا جی ، رپورٹر نے کئی دفعہ کوشش کی رابطہ کرنے کی۔
عمر چیمہ : مجھے بھی بات کرنے دیں نا۔ یہ جو صاحب ہِیں ان سے کہیے کہ اپنی اپنی باری پے بات کریں۔ مہر آپ نے بالکل درست بات کی ہے کہ سچ سب سے پہلے قربان ہورہا ہے۔
اسی دوران ارشد شریف ایک بار پھر مُخل ہوتے ہیں اور دنگل کا آغاز ہوجاتا ہے۔ جن چند جُملوں کی سمجھ آتی ہے ان کا سادہ الفاظ میں یہی مطلب ہوتا ہے کہ تم غدار ہو۔ تم ٹٹوّ ہو۔ تم تو صحافی ہی نہیں۔ تمہاری وجہ سے تمہارا ادارہ مشکل میں ہے وغیرہ وغیرہ
ڈان نیوز کے پروگرام نیوزآئی کے 14 مئی 2014 کے دن نشرہونے والے پروگرام سے اقتباس
**********************************
پسِ تحریر: لندن پلان کی ناکامی کے پیچھے چُھپی وجوہات کا احاطہ اگلی نشست میں کیا جائیگا جو کہ اس سلسلے کی آخری قسط ہوگی
To Be Continued
London Plan – 1
London Plan – 2
London Plan – 3
London Plan – 4
London Plan – 5
![MIQ2]()
About: The Author:
Mudassar Iqbal is an IT Professional serving abroad with a passion for politics and can be reached at@danney707 on Twitter